پاکستان انٹرنیٹ کی آزادی کی درجہ بندی بہتر بنائے،میاں زاہد حسین

ملکی مفاد کے نام پر عوام کی آواز دبانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے،صدر کراچی انڈسٹریل الائنس

بدھ 23 نومبر 2016 16:59

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 نومبر2016ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینیئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاکستان انٹرنیٹ کی آزادی پر قدغن لگانے کے بجائے اپنی عالمی درجہ بندی بہتر بنائے جو اس وقت غیر متاثر کن ہے۔ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان انٹرنیٹ کی آزادی کی فہرست میں بہت نیچے ہے ۔

پاکستان کی درجہ بندی کو چین، ایران اور سعودی عرب کے مساوی قرار دیا گیا ہے جہاں انٹرنیٹ سنسر شپ،اسکی نگرانی اور حکومت کی جانب سے مختلف ویب سائیٹس بلاک کرنا اور کڑی سزائیںمعمول ہے۔ انٹرنیٹ کے استعمال پر غیر ضروری پابندیاں ملکی مفاد کے خلاف ہیں۔

(جاری ہے)

میاں زاہد حسین نے یہاں جاری ہونے والے بیان میں کہا کہ دنیا بھر میں انٹرنیٹ کے استعمال میں اضافے کے ساتھ اس پر پابندیاں اور سزائیں بھی بڑھ رہی ہیں جو تشویشناک ہے۔

گزشتہ چار سال میں دنیا بھر میں انٹرنیٹ کے متعلق سزائوں میں سو فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ انٹرنیٹ پر غیر ضروری پابندی سیاسی، سماجی اور کاروباری شعبوں کو متاثر کرتی ہے جسکی وجہ سے پاکستان میں انٹرنیٹ کا استعمال کوششوں کے باوجود صرف اٹھارہ فیصد ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں شراکت داروں اور سول سوسائٹی کی جانب سے تحفظات کے باوجود الیکٹرانک کرائمز کاقانون نافذ کیا گیا ہے جس کے بعد انسانی حقوق کے متعلق سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

ملکی مفاد کے نام پر انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی آواز اٹھانے یا ظلم کے خلاف بولنے والوں کی آواز دبانا غیر جمہوری اور غیر انسانی عمل ہے جو مہذب معاشروں کی روایات کے خلاف ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ مختلف ویب سائیٹس اور انٹرنیٹ پر مواد بلاک کرنے کے نظام میں شفافیت لائی جائے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لوٹ مار اور انسانی حقوق کی پامالی سے روکا جائے۔

انھوں نے کہا کہ انٹرنیٹ ترقی کا لازمی جزبن چکا ہے مگر پاکستان ابھی اس شعبے میں بہت پیچھے ہے جبکہ اس خطہ میں سب سے زیادہ ترقی سری لنکا اور بھارت میں ہوئی ہے۔ترقی پزیر ممالک میں موبائل کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے مگر انٹرنیٹ کے استعمال میں بہت پیچھے ہیںجسکی شرح بہتر بنانے کیلیئے پالیسی سازوں کو اقدامات کرنا ہونگے۔

متعلقہ عنوان :