مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلا کر مردم شماری کرانے کے مسئلہ کا حل نکالا جائے، چیئرمین سینیٹ

مردم شماری موخر کرنے کا فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل میں کیا گیا ‘ اس کے نہ ہونے میں کسی صوبے کے مفاد کی بات کرنا افسوسناک ہے ،،قبائلی علاقوں میںدو کے سوا تمام ایجنسیوں میں متاثرین کی بحالی اور آبادکاری کا عمل مکمل ہو چکا ‘ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں رواں سال کے آخر تک تمام متاثرین کو دوبارہ آباد کردیا جائیگا،اسلام آباد کے ماسٹر پلان پر ہر 20 سال بعد نظرثانی کی جاتی ہے‘ اسلام آباد میں3نئے ہسپتال بنائے جارہے ہیں‘ تعلیمی اداروں میں سہولیات فراہم کی جارہی ہیں‘ گریڈ ایک سے 16 تک ریگولر بھرتیاں وزارتیں این ٹی ایس کے ذریعے کرتی ہیں‘ اس سے اوپر گریڈز میں بھرتیاں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کی جاتی ہیں،وفاقی وز راء زاہد حامد،عبدالقادر بلوچ اور وزیر مملکت کیڈ کے سینیٹرز کے سوالوں کے جواب ، تحاریک پر سمیٹتے ہوئے خطاب

پیر 21 نومبر 2016 22:00

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 21 نومبر2016ء) چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلا کر مردم شماری کرانے کے مسئلہ کا حل نکالا جائے۔ جبکہ حکومت کی طرف سے سینٹ کو بتایا گیا ہے کہ مردم شماری موخر کرنے کا فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل میں کیا گیا ہے‘ مردم شماری نہ ہونے میں کسی صوبے کے مفاد کی بات کرنا افسوسناک ہے ،اسلام آباد کے ماسٹر پلان پر ہر 20 سال بعد نظرثانی کی جاتی ہے‘ اسلام آباد کے ہسپتالوں کو بہتر کیا جارہا ہے‘ تین نئے ہسپتال بنائے جارہے ہیں‘ تعلیمی اداروں میں سہولیات فراہم کی جارہی ہیں‘ گریڈ ایک سے 16 تک ریگولر بھرتیاں وزارتیں این ٹی ایس کے ذریعے کرتی ہیں‘ اس سے اوپر گریڈز میں بھرتیاں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کی جاتی ہیں،قبائلی علاقوں میںدو کے سوا تمام ایجنسیوں میں متاثرین کی بحالی اور آبادکاری کا عمل مکمل ہو چکا ہے‘ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں یہ عمل جاری ہے‘ رواں سال کے آخر تک تمام متاثرین کو دوبارہ آباد کردیا جائے گا۔

(جاری ہے)

پیر کو ایوان بالا کے اجلاس میں سینیٹر محسن عزیز کی تحریک پر بحث سمیٹے جانے کے بعد ریمارکس دیتے ہوئے چیئرمین سینٹ نے کہا کہ آرٹیکل 51 کے تحت قومی اسمبلی کی سیٹیں بھی نئی مردم شماری کے تحت ہونگی۔ فوج مشرقی و مغربی سرحدوں کی صورتحال کے پیش نظر جلد دستیاب نہیں ہوگی۔ سی سی آئی کا اجلاس بلا کر اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔ نادرا پر انحصار کرنا مناسب نہیں ہوگا‘ کوئی اس پر اعتماد نہیں کرے گا۔

وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ اس ایوان میں کئی بار اس معاملے پر بات ہو چکی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ مردم شماری ہو اس کے لئے بجٹ بھی مختص ہو چکا تھا‘ باقی تیاریاں بھی‘ مشترکہ مفادات کونسل نے فوج کی دستیابی نہ ہونے کی وجہ سے مردم شماری موخر کرنے کا فیصلہ کیا۔ شفافیت کی خاطر فوج کی نگران میں مردم شماری ضروری ہے۔ مردم شماری کے لئے بڑی تعداد میں فوجیوں کی ضرورت ہے۔

اتنی بڑی تعداد میں فوج فی الحال دستیاب نہیں۔ یہ کہنا کہ مردم ماری نہ ہونے میں کسی صوبے کا مفاد ہے افسوسناک بات ہے۔ کئی دیگر تجاویز پر بھی کام ہو رہا ہے۔ ان میں نادرا کا ڈیٹا استعمال کرنے کی تجویز بھی ہے۔ اب مردم شماری کے لئے مارچ 2017ء کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ قبل ازیں سینیٹر محسن عزیز نے تحریک پیش کی کہ ایوان ملک میں مردم شماری کرنے میں تاخیر پر حکومتی موقف کو زیر بحث لائے۔

تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے انہو نے کہا کہ آخری مردم شماری کو 18 سال ہو چکے ہیں۔ درست اعداد و شمار کے بغیر کیسے کوئی کام ہو سکتا ہے۔ فوج تو سرحدوں پر مصروف ہے۔ اس طرح تو مردم شماری کئی سال نہیں ہو سکے گی۔ جلد سے جلد مردم شماری کی جائے۔ الیاس بلور نے کہا کہ دو تہائی فوج سرحدوں پر مصروف ہے تو مردم شماری کیسے ہوگی۔ این ایف سی ایوارڈ اور عام انتخابات کے لئے نئی حلقہ بندیوں سے قبل مردم شماری ضروری ہے۔

سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ مردم شماری صرف فوج کے مصروف ہونے کی وجہ سے نہیں ہو پا رہی ‘ مجھے تو مردم شماری کبھی ہوتی نظر نہیں آرہی۔ حکومت کو اس مسئلے کا حل سوچنا چاہیے۔ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے ہی 1998ء میں آخری مردم شماری کرائی تھی۔ اور مرحلہ وار بھی کرائی جاسکتی ہے۔ اب بھی موجودہ حکومت ہی مردم شماری کرائے گی۔ مردم شماری 2008ء اور اس کے بعد کیوں نہیں کرائی جاجائے اپوزیشن ارکان کو اس کی وجہ بھی بتانی چاہیے۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ مردم شماری کے بغیر منصوبہ بندی نہیں کی جاسکتی۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ مردم شماری کے مسئلے پر طنز نہیں کرنا چاہیے۔ ہر دس سال بعد مردم شماری ہونی چاہیے‘ موجودہ حکومت کے دور میں مردم شماری ضرور ہوگی۔ سینیٹر اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ ایک صوبے کی اجارہ داری کے لئے مردم شماری نہیں کرائی جاتی، سینیٹر چوہدری تنویر خان کی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر مملکت کیڈ طارق فضل چوہدری نے کہا کہ ماسٹر پلان پر قواعد کے تحت ہر 20 سال بعد نظرثانی کی جانی ہے۔

وقتاً فوقتاً اس میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ اسلام آباد پانچ زونز میں تقسیم ہے۔ 2010ء میں زون فور جس میں زرعی فارمز تھے اس میں تبدیلی کی گئی۔ وہاں ہائوسنگ سوسائٹیاں بھی بنیں اور سکول بھی‘ سی ڈی اے نے بھی اپنی سکیم لانچ کی۔ ایف نائن رہائشی سیکٹر تھا۔ ماسٹر پلان میں تبدیلی کرکے یہاں پارک بنایا گیا۔ شہریوں کی ضرورت کے تحت ماسٹر پلان میں تبدیلیاں کرنی چاہئیں۔

سی ڈی اے نے دیہی علاقوں کو کبھی اون نہیں کیا وہاں بائی لاز نہیں بنائے۔ 25 سال بعد سی ڈی اے کو یاد آتا ہے کہ یہ ہائوسنگ سوسائٹی غیر قانونی ہے۔ برما ٹائون قیام پاکستان سے پہلے کی آبادی ہے۔ اسے غیر قانونی ڈیکلیئر کردیا گیا تھا۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے نام سے ادارہ بنا رہے ہیں۔ اسلام آباد میں ٹرانسپورٹ سسٹم لایا جائے گا۔

پرائیویٹ پارٹی بسیں چلائے گی۔ سبسڈی دینا پڑی تو وہ بھی دیں گے۔ پمز کی او پی ڈی میں روزانہ دس ہزار مریض آتے ہیں حالانکہ شروع میں یہ 500 لوگوں کے لئے تھی۔ تمام سکولوں میں سہولیات بہتر بنا رہے ہیں۔ نئی بسیں خرید رہے ہیں۔ اسلام آباد کے ہسپتالوں کو بہتر بنایا جارہا ہے۔ 46 نئے ہسپتال ملک بھر میں بنیں گے۔ ان میں سے تین اسلام آباد میں بنیں گے۔

اسلام آباد کے شہریوں کی خدمت کے لئے ہر وقت تیار ہیں۔ سینیٹر چوہدری تنویر خان نے تحریک پیش کی کہ ایوان اسلام آباد کے ماسٹر پلان پر نظرثانی کی ضرورت اور اہمیت کو زیر بحث لائے۔ چیئرمین کی طرف سے اجازت ملنے کے بعد انہوں نے تحریک پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پہاڑ کے دامن میں تین سیکٹر مسلح افواج کو دے دیئے گئے۔ یہ جگہ رہائشی سیکٹرز کے لئے مختص تھی۔

پمز کی اصل لوکیشن چک شہزاد کے پاس تھی اسے بھی بدل دیا گیا۔ سی ڈی اے زون ون کو برقرار رکھنے میں بھی ناکام رہا۔ بغیر پلاننگ کے پلازے اور شاپنگ سنٹرز بن رہے ہیں۔ اسلام آباد میں ٹرانسپورٹ کا بہتر نظام نہیں ہے۔ میٹرو تک لنک بننے چاہئیں۔ کم آمدنی والے طبقات کے لئے رہائشی سہولیات ہونی چاہئیں۔ پوری دنیا میں لوگ ہائی رائز عمارتوں کی طرف جارہے ہیں۔

ہمیں اس طرف جانا چاہیے۔ شہر کے ماسٹر پلان کے حوالے سے فیصلے کرنے چاہئیں۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ بتایا جائے کہ کوئی ماسٹر پلان موجود بھی ہے یا نہیں۔ نیشنل پارک میں غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں۔ اگر ماسٹر پلان پر نظرثانی کرنی ہے تو یہ بہترین وقت ہے۔ چیئرمین نے کہا کہ سی ڈی اے کا یہ حال ہے اس ہال‘ جس میں ہم بیٹھے ہیں اس کی اوریجنل ڈیزائن دستیاب نہیں ہے۔

سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ ماسٹر پلان پر نظرثانی کرنا اچھی بات ہے‘ یہ کام کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ ریگولر بھرتیوں میں گریڈ ایک سے 16 تک وزارتیں این ٹی ایس کے ذریعے میرٹ پر بھرتیاں کرتی ہیں۔ اس سے اوپر پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتیاں کی جاتی ہیں۔

کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بھرتیاں بھی این ٹی ایس کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ اگر کہیں قواعد کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو نوٹس میں لایا جائے۔ قبل ازیں ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کنٹریکٹ کی بنیاد پر بھرتی کے حوالے سے حکومت کی ریکروٹمنٹ پالیسی کو زیر بحث لانے کی تحریک پیش کی جس پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریکروٹمنٹ پالیسی لیبر لاء کے خلاف ہے‘ یہ استحصال کی بدترین شکل ہے۔

کنٹریکٹ یا ڈیلی ویجز پر کئی سال رکھنے کے بعد اکوور ایج کرکے ملازمین کو پھینک دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے ہزاروں ملازمین احتجاج پر ہیں۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ کئی اداروں میں اس طرح کے حالات ہیں۔ ملازمت کا تحفظ ہونا چاہیے۔ حال ہی میں بلوچستان میں لیویز کی بھرتیاں کیسے ہوئیں سب جانتے ہیں۔ سینیٹر کلثوم پروین کی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ وفاقی وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ فاٹا متاثرین کے عوام اتنے خراب نہیں ہیں جتنے بتائے گئے‘ سات ایجنسیوں میں سے دو ایجنسیوں شمالی و جنوبی وزیرستان میں طالبان نے تباہی کی تھی۔

کرم ایجنسی پر طالبان کا کوئی عمل دخل نہیں تھا‘ باجوڑ‘ مہمند میں بھی نہیں تھا۔ حکومت نے سو ارب روپے فاٹا متاثرین کی بحالی و آباد کاری کے لئے مختص کئے۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد اب طالبان پکڑے گئے یا مارے گئے۔ فاٹا اب کلیئر اور صاف ہے۔ وہاں بنیادی سہولیات بحال کی جارہی ہیں۔ پانی کی سہولت‘ صحت اور تعلیمی سہولیات کو بحال کرنے کے بعد متاثرین کو بھیجا جاتا ہے۔

باجوڑ‘ مہمند‘ خیبر‘ اورکزئی ایجنسیوں کے لوگ مکمل طور پر واپس جاچکے ہیں۔ کرم کے لوگ بھی واپس جاچکے ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں بھی لوگ واپس جارہے ہیں۔ نارتھ وزیرستان کے لوگ سال کے آخر تک واپس چلے جائیں گے۔ فوج کے کامیاب پراجیکٹس کو سراہا جارہا ہے۔ فوج کی قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہیے وہ جانیں دے کر اپنا کام کر رہی ہے۔ فاٹا ریفارمز کے حوالے سے ایوان میں تفصیلی اظہار خیال کروں گا۔

فاٹا کو خیبر پختونخوا اور باقی پاکستان کے برابر لانا چاہتے ہیں۔ قبل ازیں سینیٹر کلثوم پروین نے تحریک پیش کی کہ ایوان فاٹا میں بے گھر کئے گئے افراد کی بحالی کے لئے حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کو زیر بحث لائے۔ تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ متاثرین ابھی تک رشتہ داروں کے گھروں میں ہیں یا خیموں میں کیونکہ وہ خوف کا شکار ہیں۔ فاٹا کا کلچر اور انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ متاثرین کی فوری آبادکاری کی جائے۔ سکول و کالج کو ترجیحاً مکمل کیا جائے۔ حکومت نرم شرائط پر قرضے دے۔