سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کا اجلاس

پیر 21 نومبر 2016 20:54

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 نومبر2016ء) سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کا اجلاس پیر کو یہاں منعقد ہوا۔ کنوینئر سینٹر عثمان خان کاکڑ کی صدارت مں منعقد ہونے والے اجلاس میں سینیٹرز محمد اعظم خان موسیٰ خیل، جہانزیب جمالدینی، مولانا تنویر الحق تھانوی، خالدہ پروین اور گیان چند نے شرکت کی۔ کمیٹی کو وزارت منصوبہ بندی و اصلاحات کے حکام نے آگاہ کیا کہ بلوچستان کیلئے 100 چھوٹے ڈیموںکی تعمیر کی منظوری ہو چکی ہے۔

صوبائی حکومت بلوچستان کی بحث سے پی سی ون آنے میں مشکلات ہیں۔ مزید 100 ڈیم بلوچستان پیکیج میں الگ شامل ہیں۔ بلوچستان میں خشک سالی کا خدشہ مزید بڑھ گیا ہے۔کمیٹی نے خشک سالی پر اظہار تشویش کیا۔ سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ اربوں روپے بڑے ڈیموں کی بجائے 20، 20 لاکھ کے چھوٹے ڈیم بنا کر دیئے جائیں تاکہ شہریوں کو پانی مل سکے۔

(جاری ہے)

بلوچستان کے اضلاع ماسوائے کوئٹہ کم ترقی یافتہ ہیں، کم ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی پر حکومت زیادہ توجہ دے، بلوچستان کے طلباء کیلئے بھی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے وظائف اور ترقیاتی منصوبے بھی کم ہیں، نئی یونیورسٹیوں کے قیام کیلئے کمیٹی کی سفارشات پر عمل کیا جائے۔

لورا لائی یونیورسٹی پر کام سست اور ژوب یونیورسٹی پر کام شروع نہیں ہوا۔ بلوچستان اور فاٹا کے علاوہ کم ترقی یافتہ علاقوں کے 2 سال کے منصوبے 10 سال تک تکمیل نہ ہونے کی وجہ سے اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔کم ترقی یافتہ علاقوں میں 08-10 سال کے پرانے منصوبے ہیں۔ وزیر اعظم نوٹس لیںزیادہ بجٹ دیا جائے انہوں نے کہا کہ 2013ء سے 2016ء تک کے کم ترقی یافتہ علاقوں کے منصوبوں میں رکھے گئے بجٹ میں سے اخراجات نہیں کئے گئے۔

سینیٹر جہانزیب جماالدینی نے کہاکہ بلوچستان میں پانی سطح زمین سے نیچے جارہا ہے۔ پانی کے چھوٹے ذخائر بنائے جائیں خشک سالی سے شہری ہجرت پر مجبور ہو رہے ہیں۔سینیٹر اعظم خان موسیٰ خیل نے کہا کہ ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں ممبران پارلیمنٹ سے مشاورت کی جائے۔سینیٹر خالدہ پروین نے کہا کہ 2010ء کے سیلاب کے متاثرین جنوبی پنجاب کا کوئی پرسان حال نہیں، ٹی پی لنک کینال کے فنڈرجاری کئے جائیں۔

سینیٹر گیان چند نے تھرپار ،عمر کوٹ کے پانی کے منصوبوں کے فنڈز کا معاملہ اٹھایا۔وزارت منصوبہ بندی کے حکام نے آگاہ کیاکہ 95 فیصد فنڈز جاری منصوبہ جات اور 5 فیصد نئے منصوبہ جات کیلئے رکھے جاتے ہیں، کوئٹہ میں پانی کے معاملہ کو حل کرنے کیلئے منگی ڈیم دوسال سے منظور شدہ ہے، منصوبے کیلئے تین ارب کی رقم صوبائی حکومت کو بھجوا دی گئی ہے، میرانی ڈیم کی رقم بھی صوبائی حکومت کے حوالے کردی گئی ہے۔

صوبائی حکومت کو پی سی ون اور فزیبلٹی کیلئے یا دہانی خطوط لکھے گئے ہیں۔ 14 نئے ڈیموں میں سے ایک کا بھی پی سی ون نہیں بھجوایا گیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیاکہ اگلا اجلاس کوئٹہ میں منعقد کیا جائے گا جس میں چیف سیکرٹری بلوچستان اور محکمہ آب پاشی کے سیکرٹری شرکت کریں گے۔ ایچ ای سی خزانہ اور پانی و بجلی کی وزارتوں کے الگ الگ اجلاس منعقد کئے جائیں گے۔ اجلاس میں وزارت منصوبہ بندی کے ایڈیشنل سیکرٹری ظفر حسن ایڈوائزر آصف شیخ، نذیر گیلانی اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :