پلڈاٹ:پاک بھارت میں جمہوریت اور طرزحکمرانی کے تجربات پرمذاکراتی دوراختتام پذیر

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ پیر 21 نومبر 2016 16:17

پلڈاٹ:پاک بھارت میں جمہوریت اور طرزحکمرانی کے تجربات پرمذاکراتی دوراختتام ..

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔21نومبر2016ء) :پاک بھارت قانون سازوں اور سرکاری اہلکاروں کے درمیان جمہوریت اور طرز حکمرانی سے متعلق تجربات کے تبادلے سے متعلق پلڈاٹ کے زیراہتمام ڈائیلاگ کا چوتھا دور دبئی میں اختتام پذیرہوگیا ہے ،جس میں زراعت اور لائیو سٹاک میں ایک دوسرے ممالک کے اچھے پالیسایوں اور تجربات کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا۔

ڈائیلاگ میں بھارت کی ریاستوں پنجاب اورہریانہ جبکہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ماہرین اور قانون سازوں نے اپنے تجربات ایک دوسرے کے سامنے رکھے۔ شرکا نے ڈائیلاگ کے انعقاد پر پلڈاٹکے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ پلڈاٹ نے دونوں ممالک کے قانون سازوں اور سرکاری افسران کو ایک موقع پر ایک دوسرے کے سامنے لا بٹھایا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں ۔

(جاری ہے)

بھارت کی جانب سے سابق ممبر بھارتی پارلیمنٹ ، سابق یونین منسٹر مانی شنکر ایئر نے پاکستان اور بھارت کے درمیان بلاتعطل اور متواتر مکالمیکی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس ڈائیلاگ کے باعث دونوں ممالک کے ذمہ داران کو جمہوری طرز حکمرانی سے متعلق اپنے تجربات کے تبادلے کا موقع ملا ہے اسے جاری رہنا چاہیے ۔ انہوں نے کہا پاکستان اور بھارت میں کے اکثر مسائل میں یکسانیت پائی جاتی ہے اس طرح دونوں ممالک ایک دوسرے کے اچھے تجربات سے سیکھ سکتے ہیں ۔

ڈائیلاگ کے پہلے سیشن بھارتی ریاستوں پنجاب اور ہرایانہ جبکہ پاکستانی صوبے پنجاب میں زراعت کے مسائل پرتبادلہ خیال ہوا۔ جس میں ماہرین نے پاکستان اور بھارت میں غذائی تحفظ کیلئے ایک دوسریملک میں اختیار کی جانے والی قومی پالیسوں اور تجربات سے استعفادہ کرنے کی اہمیت پر زور دیاتاکہ دونوں ممالک کے کسانوں اور صارفین کو فائدہ حاصل ہوسکے ۔

زرعی پالیسیوں کی اصلاحات کے دورا ن کسانوں کے نفع کو ضرور مد نظر رکھناچاہیے تاکہ غذائی تحفظ کے حصول کیلئے اختیار کی جانیپالیسیوں سے کسان متاثر نہ ہو۔ ماہرین نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک میں زرعی اصلاحات اورپالیسیوں پر حکومت اور قا نون سازوں کی جانب سے اس طرح توجہ نہیں دی جارہی جس طرح دینا چاہیے ۔شرکا کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں پانی کی قلت کا سامنا ہیتاہم پالیسی سازوں کو پانی سے جڑ ے خطرات کی شدت کا اندازہ نہیں ہے ۔

فوری طور پر دونوں ممالک میں پانی کی تحفظ کیلئے حکمت عملی پر توجہ دی جانے کی ضرورت ہے ۔ شرکا نے اس امر کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے کہ پلڈاٹ دونوں ممالک میں موجود متعلقہ یونیوسٹیوں اور اداروں میں زرعی تحقیق ، توسیع، تعلیم میکنزم ، ذخیرہ اندوزی اور لائیو سٹاک کے شعبوں میں رابطے کیلئے بھی سہولت کاری انجام دے سکتی ہے ۔ ایک دوسرے ممالک میں کسانوں میلوں کے انعقاد ،تعلیمی رابطہ اور ڈائیلاگ فورمز تشکیل دینے جبکہ کسانوں، طلبہ ، زرعی ماہرین کو ایک دوسرے ممالک میںآ مدورفت کو بڑھنے سے ایک دوسرے کے تجربات سے استعفادہ کرنے میں مدد ملے گی ۔

شرکا نے بیج کے معیار، کم سے کم پانی سے کاشت کے تجربات، موسمیاتی تبدیلیوں، موثرایگرو پرسسنگ ، قحط سے مزاحم فصلوں کی ترویج ، باغبانی، پھولوں کی کھیتی کی تلاش،لائیو سٹاک ،فشریز ، نامیاتی کاشتکاری کے شعبوں، زراعت میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے متعلق دونوں ممالک کے متعلقہ اداروں کو تعاون بڑھانے کی تجویز بھی دی۔ دوسرے سیشن میں لائیوسٹاک کے شعبے میں اپنے اپنے تجربات ایک دوسرے کے سامنے رکھے گئے ۔

شرکا کہنا تھا کہ زراعت کی طرح لائیوسٹا ک کے شعبے میں بھی ایک دوسرے کے تجربات سے استعفادہ کیا جاسکتا ہے خصوصی طور پر اینمل بریڈنگ کے شعبے میں۔ شرکا نے ویکسین ریسرھ ، بیماریوں سے متعلق معلومات کے تبادلے ، بریڈ کی ترقی کے تجربات ،فلاح حیوانات کے شعبوں میں وونوں ممالک میں تعاون بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ ڈائیلاگ میں پاکستان کی جانب سے سینیٹر محسن لغاری، رکن پنجاب اسمبلی قاضی عدنان فرید، رکن پنجاب اسمبلی میاں محمود الرشید، رکن پنجاب اسمبلی ملک احمد خان سمیت دیگر سرکاری حکام کے علاوہ پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب ، جوائنٹ سکریٹری آسیہ ریاض کے علاوہ شاعرہ خان نے شرکت کی ہے ۔

اسی طرح بھارت کی جانب سے سابق بھارتی پارلیمنٹ ،یونین منسٹرانڈیامانی شنکرایئر،اسپیکرہریانہ قانون سازاسمبلی کنول پال،ڈپٹی اسپیکر ہریانہ اسمبلی سنتوش یادوسمیت پنجاب اور ہریانہ سے اراکین پارلیمنٹ اور سرکاری حکام نے شرکت کی ہے۔

متعلقہ عنوان :