بھارتی فوج کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر فائربندی کی خلاف ورزیوںپر منہ توڑ جواب دینے کے ساتھ ساتھ تینوں مسلح افواج مکمل فعال اور الرٹ ہیں

سینٹ کی مشترکہ قائمہ کمیٹی دفاع اور خارجہ کی رپورٹ

اتوار 20 نومبر 2016 13:10

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 نومبر2016ء) سینٹ کی مشترکہ قائمہ کمیٹی دفاع اور خارجہ نے بھارت اور افغانستان کے ساتھ سرحدوں پر صورتحال اور پاکستان کی دفاعی تیاریوں سے متعلق اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارتی فوج کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر فائربندی کی خلاف ورزیوںپر منہ توڑ جواب دینے کے ساتھ ساتھ تینوں مسلح افواج مکمل فعال اور الرٹ ہیں ‘ پاکستان نے اب تک لائن آف کنٹرول پر کوئی خلاف ورزی نہیں کی لیکن بھارت کی جانب سے ہر خلاف ورزی پر موثر جواب دیا گیا ‘دہشت گردی کی روک تھام ‘اسلحہ اور منشیات کی سمگلنگ کو ناکام بنانے کے لئے دونوں ممالک کو پاک افغان سرحد پر 178کراسنگ پوائنٹس پر نقل و حرکت کی کڑی نگرانی کرنی چاہیے ‘رواںسال اگست سے اب تک پاک افغان سرحدعبورکرنے کی 86 خلاف ورزیاںہوئیں ‘موثر سرحدی نگرانی کے لئے ماڈل پراجیکٹ کے طور پر سفری دستاویزات نظام متعارف کردیا گیا ہے ‘ پاکستان افغانستان کے مابین تمام پرانے تنازعات کا حل صلح کے عمل میں ہے‘دہشت گردوں کے آپریشن کے بعد کلیئر کرائے گئے علاقوں میں آئی ڈی پیز کی واپسی کا عمل تیزی سے جاری ہے ۔

(جاری ہے)

چیئرمین سینٹ نے بھارت اور افغانستان کیساتھ سرحدوں پر صورتحال اور پاکستان کی دفاعی تیاری سے متعلق مشترکہ رپورٹ مرتب کرنے کے لئے سینٹ کی قائمہ کمیٹی دفاع اور خارجہ کو ٹاسک سونپا تھا ۔سینٹ کی مشترکہ قائمہ کمیٹی دفاع اور خارجہ کے چیئرمین مشاہد حسین سید اور نزہت صادق تھیں جبکہ دونوں کمییٹوں کے ممبران مشترکہ کمیٹی کے ممبران تھے ۔گذشتہ روز سینٹ میں مشترکہ کمیٹی کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں آگاہ کیا گیا ہے کہ مشترکہ قائمہ کمیٹی کے اجلاسوں سیکرٹری دفاع کی جانب سے وضاحت کی گئی ہے کہ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ 2611کلومیٹر سرحد ہے اور بے شمار مقامات سے لوگ آ جا سکتے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ اس سرحد پر دہشتگردوں ‘ڈرگ ٹریفیکرز ارو سمگلروں کے داخلے کے حواے سے پاکستان کو بے پناہ مشکلات درپیش ہیں ‘راوئیتی طور پر استعمال ہونے والے راستوں میںطور خم ‘چمن ‘غلام خان ‘انگور اڈہ کے علاوہ بھی کئی غیر راویتی راستے استمعال کیے جاتے ہیں ۔

ڈائریکٹوریٹ جنرل اف ملٹری آپریشنز کے مطابق 176ایسے غیر روایتی راستے ہیںجن میں 162ذیادہ استعمال ہوتے ہیں جبکہ 16کم استعما ہوتے ہیں مگر ان کے علاوہ بھی چھوٹے چھوٹے انٹری پوائنٹس ہیں جو کو شامل کرنے پر انٹر پوائنٹس کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ جاتی ہے ‘اس صورتحال کے پیش نظر دونوں ممالک کی جانب سے اس سرحد کی مناسب اور کڑی نگرانی کی ضرورت ہے ۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ مہینوں کے دوران پاک افغان سرحد پر کراس بورڈ فائرنگ اور موٹر شیلنگ کی شکایات میں بتدریج اضافہ ہوا ہے ‘سرحد پر افغانستان کے حدود میں مسلح گروپوں کی موجودگی کی بناء پر اس کی تصدیق کرنا بھی مشکل ہے کہ فائرنگ مسلح گروپ کی طرف سے کی جاتی ہے یا افغان سکیورٹی فورسز کی جانب سے تا ہم سرحد کے دونوں جانب سے متعلقہ حکام فلیگ میٹنگس کرتے رہتے ہیں اورمعاملات کے پرامن حل کے لئے باہمی کوشیشں جاری رہتی ہیں ۔

ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ کے مطابق رواں ماہ اگست کے وسط سے آپریشن خیبر تھری کے آغاز سے اب تک افغانستان کی حدود سے سرحد پار کی 86خلاف ورزیاں کی گئیں ‘اس دوران فائرنگ کے دو سنجیدہ واقعات بھی رونما ہوئے ‘14اکتوبر کو افغانستان سے آنے والے خودکش بمبار نے کرم ایجنسی میں کراچی کے مقام پر خود کو اڑادیا ‘جس سے ایک پاکستانی اہلکار زخمی ہوا ‘اسی طرح 16اکتوبر چھوٹے بڑے ہتھیاروں اور راکٹ سے پھینکے جانے والے گرینڈ افغانستان کی جانب سے جنوبی وزیرستان میں فائر کیے گئے اس فائرنگ کے نتیجے میں دو پاکستانی فوجی شہید ہوئے جبکہ ایک زخمی ہوا ۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان سرحد کی نگرانی کے حوالے سے موثر پالیسی پر عمل پیرا ہے اس کے لئے حکومت پاکستان افغان حکومت کے ساتھ رابطوں اور صلح مشوروں میں مصروف ہے ‘آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں دہشت گردوں کو یاتو ختم کر دیا گیا ہے یا وہ علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔مشاورت کے یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ انفراسٹرکچر بشمول دروازے تعمیر کرنا ‘پیدل کراس کرنے والوں کے لئے فٹ پاتھ کی تعمیر اور کسٹم چیک پوسٹ قائم کرنا اور انھیں بہتر بنانا تھا ۔

رپورٹ کے مطابق سیکرٹی خارجہ امور نے پاک افغان بارڈ پر اہم پیش رفت کے بارے میں اجلاس کو تفصیل سے آگا ہ کیا ۔انہوں نے بتا یا کہ 75فیصد سے زائد عارضی طور پر نقل مکانی کرنے والے افراد کامیاب آپریشن ضرب عضب کے بعد اپنے آبائی علاقوں کو جاچکے ہیں ۔انہوں نے بتا یا کہ پاکستان افغانستان کے مابین تمام پرانے تنازعات کا حل صلح کے عمل میں ہے جو بدقسمتی سے ملا منصور واقع کے بعد تعطل کا شکار ہوا ۔

رپورٹ کے مطابق سیکرٹری دفاع نے اجلاس کو پاکستان بھارت کی سرحد کی صورتحال کے بارے میں بتایا کہ پاکستان کی 1094کلومیر بین الاقوامی سرحد ہے ‘ 193کلومیٹر ورکنگ بائونڈری(پاکستان اور بھارتی مقبوضہ کشمیر کے درمیان )اور 767.67کلومیٹر لائن آف کنٹرول(اے جے کے اور ایل او سی) کے درمیان 1094کلومیٹر طویل بین الاقوامی سرحد پر 598دروازے نصب ہیں اور اس طریقہ کار میں 179دروازے 193کلویٹر طویل ورکنگ بائونڈری پر نصب ہیں ‘دونوں اطراف کی طرف سے مشکل طورتحال سے بچنے کے لئے دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن کے درمیان ہاٹ لائن موجود ہے ‘دونوں ممالک کے درمیان بارڈ منیجمنٹ فریم بارڈر گرائونڈ رولز 1960پر مبنی ہے ‘اڑی واقعہ کے بعد بھارت نے لائن آف کنٹرول پر فائربندی کی متعددبار خلاف ورزیاں کیں ہیں ‘گذشتہ ایک سال میں بھارتی فوج کی طرف سے 103مرتبہ فائر بندی کی خلاف ورزیاں ہوئیں ۔

رپورٹ کے مطابق سیکرٹری دفاع نے اجلاس کو بتا یا کہ بھارتی فوج کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کی خلاف ورزیوں پر مسلح افواج مکمل طور پر الرٹ ہیں ‘پاکستان ایئر کرافٹس پوری طرح سرگرم ہیں اور اعلی معیار کی مشقیں کرائی جاتی ہیں ‘ایئر بیسز چوکس‘پاکستان نیوی بھی سمندر میں سرگرم عمل اور چوکس ہے ‘پاکستان نے اب تک کوئی سرحد خلاف ورزی نہیںکی لیکن تمام سرحدی خلاف ورزیوں کا بھر پور جواب دیا‘بھارت کی جانب سے جارحیت کی صورت میں پاک فوج اسے ناکام بنانے کے لئے ہر وقت تیار اور اہل ہے ۔

رپورٹ کے مطابق سیکرٹری دفاع نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی غیر معمولی نقل و حرک کا ذکر کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاک فوج اس صورتحال سے پوری طرح باخبر ہے اور بھارتی عزائم کا بھرپور مقابلہ کرسکتی ہے ۔

متعلقہ عنوان :