اب وقت آ گیا ہے تمام ادارے آپس میں کھل کر بات کریں،بار ‘ عدلیہ نظام انصاف کے ناگزیر اجزاء ہیں‘ چیف جسٹس لاہو رہائیکورٹ

افراد کے ذاتی معاملات اداروں کی ترقی میں حائل نہیں ہونے چاہئیں، ادارہ نہیں ہوگا تو ہم کچھ بھی نہیں ہیں‘ جسٹس سید منصور علی شاہ کا خطاب

ہفتہ 19 نومبر 2016 23:01

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 نومبر2016ء) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کی ایک سو پچاس سالہ تقریبات منانے کا مقصد عام آدمی کو یہ احساس دلانا ہے کہ ایک متحرک عدلیہ صوبے کی عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے موجود ہے،بار اور عدلیہ نظام انصاف کے ناگزیر اجزاء ہیں، بار کے بغیر انصاف کی فراہمی ہر گز ممکن نہیں ، افراد کے ذاتی معاملات اداروں کی ترقی میں حائل نہیں ہونے چاہئیں، ادارہ نہیں ہوگا تو ہم کچھ بھی نہیں ہیں، عدلیہ کی سربلندی اور وقار کیلئے کوشاں رہنا ہم سب پر لازم ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ میں عدالت عالیہ لاہور کی 150سالہ تقریبات کے حوالے سے منعقدہ ایک سمپوزیم سے خطاب کررہے تھے۔

(جاری ہے)

اس موقع پر لاہور ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس شاہد حمید ڈار اور دیگر فاضل جج صاحبان، عدالت عالیہ کے سابق ججز، لاء افسران، جوڈیشل افسران، سول سوسائٹی اور وکلاء کی کثیر تعداد موجود تھی۔

فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ کی تقریبات کا مقصد یہ ہے کہ ہم مل بیٹھ کر سوچیں کہ ہمارا آئندہ وژن کیا ہونا چاہیے ، ہمارا سب سے اولین فرض لوگوں کے مقدمات کے فیصلے کرنا ہے۔ لوگ ہمارے پاس مقدمات لاتے ہیں اور ہم نے بلا خوف و خطر فیصلے کرنا ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ہم ہر کیٹگریز بنا رہے ہیں۔ عدالت عالیہ کے ججز کی تعداد پوری کر رہے ہیں۔

آئی ٹی سسٹم لا رہے ہیں ۔ لاہور کی جوڈیشل اکیڈمی کی شکل بدل دی ہے ۔مقدمات کی شیلف لائف میں کمی کر رہے ہیں۔لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود ہم مقدمات کا جلد فیصلہ نہیں کرتے تو تمام کوششیں رائیگاں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جج اور وکلاسخت محنت کرتے ہیں لیکن عوام اسی وقت مطمئن ہوتے ہیں جب ان کے مقدما ت کے فیصلے جلد ہوں۔ انہوں نے کہاکہ میں نے ہمیشہ شفافیت اور میرٹ کو مقدم رکھا ہے، سفارش ، رعایت اورسمجھوتے سے نفرت ہے ، ہم نے ہائیکورٹ کے ججزکی تقرری کا نیا طریقہ کار اختیار کیا اور بار اایسوسی ایشنشز سے نام لے کر سسٹم کے تحت مکمل طور پر اہل ججز تعینات کئے گئے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ میرٹ اور شفافیت میرا طرہ امتیاز ہے اور مقصد یہی ہے کہ ججز لوگوں کی دعائیں لیں اور ان کے لئے آسانیاں پیدا کریں اور اپنے اختلافات بھلا کر آگے چلیں اور ادارے اور سسٹم کو مضبوط کریں۔چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ تمام ادارے آپس میں کھل کر بات کریں۔بات چیت کا عمل کھلے دل اور کھلے ذہن کے ساتھ جاری رہے گا تو ہم وطن عزیز کو درپیش تمام مسائل کا جامع اور دیر پا حل تلاش کر سکتے ہیں۔

انہوںنے کہا کہ بار اور بینچ کے ساتھ ساتھ سول انتظامیہ کا بھی انتہائی کلیدی رول ہے۔ چنانچہ اب وقت آ گیا ہے کہ اس ملک کے عام شہری کی مشکلات ، تکالیف، دکھ اور درد کے لئے سب ادارے بھرپور کوآرڈینیشن کے ذریعہ اپنا فریضہ مشنری قومی جذبے سے سرشار ہو کر سرانجام دیں۔چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمیں اپنے ماضی کے عظیم ،علمی وفکری قانونی ورثہ اور انصاف کی فراہمی کے لئے صدیوں پر پھیلی عظیم تاریخی روایات کے تسلسل کو اگلے ڈیڑھ سو سالوں تک فروغ دینے کے لئے انتہائی ایمانداری، جرات وبہادری اور کامل پروفیشنلزم کے ساتھ اجتماعی کوششیں کرنا ہوں گی۔

فاضل چیف جسٹس نے کہا انہیں بہت خوشی ہوئی ہے کہ وہاڑی ،جتوئی، علی پور سمیت دیگر تحصیلوں کے وکلاء نے اس تقریب میں بھرپور شرکت کی ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ شکر گزار ہیں وکلاء و سول سوسائٹی انہیں بھرپور سپورٹ کر رہی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ یہ ادارہ صرف میرا نہیں ہے یہ ہم سب کا ادارہ ہے، یہ ہائی کورٹ وکلاء کا ہے، سابقہ جج صاحبان کا ہے، ضلعی عدلیہ کا ہے ، سول سوسائٹی کا ہے، ہم سب آپ کی شرکت پر تہہ دل سے مشکور ہیں۔

فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تقریبات سید منصور علی شاہ کی ذات کیلئے نہیں بلکہ ایک تاریخی ادارے کی اہمیت کو اجاگرکرنے کیلئے منعقد کی جارہی ہیں ۔ فاضل چیف جسٹس نے عدالت عالیہ کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس تاریخی عمارت کا سفر1866 سے شروع ہوا، اس سے قبل کوئی رسمی عدالتی نظام موجود نہیں تھا۔ 1866 میں چیف کورٹ ایکٹ کے تحت بننے والی عدالت کے پہلے جوڈیشل کمشنر اے اے رابرٹ تھے۔

جوڈیشل کمشنر کے عہدے کو1884 میں چیف جسٹس کے عہدے کے ٹائٹل سے تبدیل کر دیا گیااور1919 میں اس ادارے کو نام تبدیل کر کے ہائی کورٹ رکھ دیا گیا۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ 1919 میں اس ادارے کا محض نام تبدیل کیا گیا، ہماری تاریخ 1866 سے ہی شروع ہوتی ہے جسے یاد رکھنا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ فاضل چیف جسٹس بتایا کہ عدالت عالیہ کی عمارت میں مسلم (عربی)، عیسائی اور ہندو تہذیبوں کے اثرات ملتے ہیںجو مذہبی ہم آہنگی کا خوبصور ت مظہر ہیں۔

اس کا مطلب عدالت عالیہ میں رنگ ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہو کر انصاف فراہم کیا جاتا ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے موجودہ طور پر عدالت عالیہ لاہور اور راولپنڈی، ملتان اور بہاولپور میں قائم بنچز 1973 کے آئین کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ جس کیلئے افراد کے مابین اختلافات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بار، بنچ اور تمام ججزمیرے دست و بازو ہیں۔ ہم انصاف پر فیصلہ کرینگے یہی ہماری تاریخ اور یہی ہماری ورثہ اور یہی ہمارا مستقبل ہے۔ قبل ازیں تقریب سے سینئر ترین جج جسٹس شاہد حمید ڈار، جسٹس سید محمد کاظم رضا شمسی سمیت دیگر مقررین نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

متعلقہ عنوان :