فاٹا اصلاحات سے تعمیر وترقی کا نیا سورج طلوع ہوگا،سفارشات کے تحت قبائلی علاقوں میں اربن سنٹرز قائم کئے جائینگے،ان میں جدید رہائشی سہولیات ،کالج سکول اور ہسپتال تعمیر کیے جائیں گے،آبپاشی، تعلیم اور صحت کے حوالے سے بھی کئی منصوبے شروع کیے جائیں گے،20ہزار افراد کو لیویز میں بھرتی کیا جائیگا ، رواج ایکٹ جرگہ کا نعم البدل ہو گا ، اس میں انسانی حقوق کا مکمل خیال رکھا جائے گا،معاملے کو پارلیمان بھیج کر آراء طلب کی جائیں گی

مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا فاٹا اصلاحات کے حوالے سے تقریب سے خطاب وقت آ چکا کہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح فاٹا کو بھی باقاعدہ حیثیت دی جائے، عبدالقادر بلوچ ہمیں رواج ایکٹ پر محتاط انداز میں کام کرنا ہو گا ، سینیٹر فرحت اللہ بابر

منگل 15 نومبر 2016 19:32

ْاسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 15 نومبر2016ء) مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہاکہ فاٹا میں اصلاحات سے تعمیر اور ترقی کا نیا سورج طلوع ہوگا،تعمیر و ترقی کے حوالے سے فاٹا کافی پسماندہ رہ گیا ہے،سفارشات کے تحت فاٹا میں اربن سینٹرز کا قیام عمل میں لایا جا ئے گا، اربن سینٹروں میں جدید رہائشی سہولیات ،کالج سکول اور ہسپتال تعمیر کیے جائیں گے۔

آبپاشی, تعلیم اور صحت کے حوالے سے بھی کئی منصوبے شروع کیے جائیں گے،20ہزار افراد کو لیویز میں بھرتی کیا جایے گا تاکہ ریاست کی رٹ کو ہر جگہ یقینی بنایا جا سکے،۔ رواج ایکٹ جرگہ کا نعم البدل ہو گا تاہم اس میں انسانی حقوق کا مکمل خیال رکھا جائے گا،معاملے کو پارلیمان بھیج کر اس حوالے سے آراء طلب کی جائے گی ۔

(جاری ہے)

جبکہ وفاقی وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر )عبدالقادر بلوچ نے کہاکہ قبائلی علاقہ جات حکومت کے لئے نہایت اہمیت کے حامل ہیں، وقت آ چکا ہے کہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح فاٹا کو بھی باقائدہ حیثیت دی جائے ۔

تقریب سے خطاب میں انہوںنے کہاکہ قبائلی علاقہ جات حکومت پاکستانی و فاٹا عوام کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔اس سے قبل فاٹا کے نظام و معاملات کو صرف ایک گورنر کے ذریعے چلایا جا رہا تھا۔فاٹا پارلیمینٹرینز ملک بھر کے لیے تو قانون سازی کر سکتے تھے تاہم ان قوانین کا اطلاق قبائلی علاقہ جات پر نہیں ہوتا تھا۔فرنٹئر کرائمز ریگولیشن یا ایف سی آر کو ایک کالا قانون سمجھا جاتا تھا۔

ایف سی آر میں ایک فرد کی غلطی کی سزا پورے قبائل کو دی جاتی تھی۔جبکہ فیصلہ کے خلاف ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں اپیل کا حق بھی قبائلی عوام کو نہیں تھا۔فاٹا کو ملک کے دیگر حصوں کے مساوی لانے کے لیے خصوصی کوششو ں کی ضرورت تھی۔ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے فاٹا اصلاحات کی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔2017کے اختتام تک قبائلی علاقہ جات میں مقامی حکومتیں قائم کر دی جائیں گی۔

اب وقت آ چکا ہے کہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح فاٹا کو بھی باقاعدہ حیثیت دی جائے۔فاٹا کے لیے سب سے بہترین آپشن اس کا صوبہ خیبر پختونخواہ میں انضمام ہے۔ہم سفارشات تیار کر رہے ہیں جو کہ آئندہ آنے والی حکومت کے دور اقتدار میں عملی طور پر نافذ ہوں گی۔فاٹا میں آئندہ دس برس کے لیے 110 ارب خرچ کریں گے۔ وفاقی وزیر سیفران عبد القادر بلوچ نے کہا کہ فاٹا میں فوج نہ ہوتی تو امن نہ آتا،سویلین ٹھیکیدار بھاگ جاتے ہیں ، فوج نے تعمیر و ترقی کا کام کیا،کراچی میں رینجرز آپریشن نہ کرتی تو الطاف حسین کی حماقت سامنے نہ آتی،آپریشن ضرب عضب نہ ہوتا تو ملک میں امن نہ آتا۔

منگل کو مشیر خارجہ اورچیئرمین فاٹا اصلاحات کمیٹی سرتاج عزیز نے فاٹا اصلاحات کے حوالے سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لیے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کیا ملک کے باقی قوانین وہاں نافذ ہیں اور کیا وہاں جمہوری سیٹ اپ موجود ہے۔اس حوالے سے ملک کے بہترین دماغوں سے راہنمائی لے کر تعمیر ترقی کے منصوبوں کو نافذ کیا جائے گا۔

اگر فاٹا کا اسٹیٹس بدلنا ہو گا تو آئینی طور پر صدر مملکت جرگہ سے بات کریں گے تاہم پانچ برس بعد یہ سٹیج آئے گی۔آئین میں خصوصی ترامیم کے ذریعہ وہاں صوبائی اسمبلی یا کے پی کے اسمبلی میں ان کی نمایندگی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر کا فاٹا اصلاحات سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ فاٹا اصلاحات کے حوالے ہمیں رواج ایکٹ پر محتاط انداز میں کام کرنا ہو گا کیونکہ یہ ایک حساس معاملہ ہے۔

فاٹا کے حوالے سے ریفرنڈم کا لفظ استعمال نہ کیا جایے تاکہ برا تاثر نہ جائے۔ان اصلاحات میں چیف ایگزیکیٹو کا لفظ میں استعمال نہ کیا جائے۔ سیکرٹری سیفران ارباب شہزاد نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ فاٹا میں کلئیرنس آپریشنز کے دوران کئی ہزار مقامی افراد متاثر ہوئے۔ایک ایسے علاقہ میں جو کہ اپنی ماضی سے سختی سے جڑا ہوا ہو میں اصلاحات یا پالیسی کا نفاذ ہمیشہ ایک مشکل کام ہوتا ہے۔

فاٹا ریفارمز کمیٹی کی سفارشات کے تحت فاٹا کو 5برس میں کے پی کے کے ساتھ انضمام کے لیے تیار کیا جایے گا۔فاٹا کے لیے ایک دس سالہ معاشرتی ترقی کامنصوبہ تیار کیا گیا ہے جس کے لیے وفاقی حکومت مالی وسائل فراہم کرے گی۔فاٹا میں بینکنگ آپریشنز اور نجی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔تشدد کا بنیادی نشانہ شہری انتظامیہ کا ڈھانچہ اور اس کے دفاتر رہے ہیں۔ڈایریکٹوریٹ آف ریفامز اس سارے اصلاحاتی عمل کی نگرانی اور اس کے نفاز کو یقینی بنائے گا۔( و خ )