نائن الیون کے بعد مغربی استعمار نے امریکی قیادت میں عالم اسلام کو شدید نقصان پہنچایا‘پروفیسر ساجد میر

نومنتخب صدر سے بھی کوئی خیر کی امید نہیں،امریکہ کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے عالم اسلا م کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہو گا‘امیرمرکزی جمعیت اہل حدیث کا جمعہ کے اجتماع سے خطاب

جمعہ 11 نومبر 2016 18:49

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 نومبر2016ء) امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا ہے کہ امریکہ نے عالم اسلام پر غیر منصفانہ جنگیں مسلط کیں،نائن الیون کے بعد مغربی استعمار نے امریکی قیادت میں عالم اسلام کو شدید نقصان پہنچایا،نومنتخب صدر سے بھی کوئی خیر کی امید نہیں،امریکہ کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے عالم اسلا م کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہو گا۔

اس امر کا اظہار انہوں نے جنوبی کو ریا کی انچھن مسجد میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ استعماری طاقتیں اگلی صدیوں میں عالم اسلام کو اپنا ماتحت رکھنا چاہتی ہیں۔پرویز مشرف نے امریکی خوشنودی کے حصول کے لئے’’سب سے پہلے پاکستان‘‘کا نعرہ لگایا اور ڈالروں کے لیے سوداگری کی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ مغربی استعمار سے ہمیں نظریاتی وثقافتی میدان میں خطرات درپیش ہیں۔

وہ ہماری تہذیب و ثقافت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پرمسلمان کو اپنی شناخت سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا جارہا ہے اور قرآن و سنت کے قوانین کو تبدیل کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے معاشرے میں بے چینی ہے، لیکن اپنی مادی قوت کے سہارے وہ تہذیبی میدان میں بھی برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اس کے لئے ہمارا خاندانی نظام ان کا خاص ہدف ہے۔ہمارے خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیرنے کے لئے وہ خواتین کو اکساتے ہیں اور ان کے اندر یہ احساس پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسلامی تہذیب اور قرآن و سنت کے قوانین میں تمھارے اوپر ظلم و زیادتی روا رکھی گئی ہے، تمھیں پابنداورغلام بناکر رکھا گیاہے،مغرب کی عورت کے مقابلے میں تم ایک طرح سے قید کی زندگی میں ہو۔

خو اتین سے کہا جاتا ہے کہ تم ان پابندیوں کو توڑوگی تو تمھیں آزادی نصیب ہوگی جبکہ اسی آزادی کے نتیجے میں ان کا خاندانی نظام تہس نہس ہو چکا ہے، ان کے ہاں کوئی چیز مقدس نہیں رہی، شادی کا تقدس بھی ختم ہو گیا ہے،اور ان کے مرد اور عورتیں آسانی کے ساتھ شادی کے بندھن میں جانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔اگر کوئی اس بندھن کو قبول کر بھی لے تو دو تین سال میں علیحدگی ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مغرب میں عورت کی آزادی کا تصورمرد کی تفریح طبع کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ان کے ہاں اضطراب اور بے چینی بڑھ رہی ہے۔ یہ سراب کی مانندہے جس میں انسان بالآخر مایوسی کا شکار ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی اطاعت و وفاداری اور حدود کے اندر رہ کر زندگی گزاری جائے تو قلب و نظر کواطمینان و سکون نصیب ہوسکتا ہے۔

متعلقہ عنوان :