عالمی بینک نے کراچی کو دنیاکی10ناقابل رہائش شہروں کی فہرست میں شامل کر لیا

کراچی کی 50فیصد سے زائد آبادی کچی آبادیوں پر مشتمل ،آبادی میں دگنی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے آبادی کے تیز ترین پھیلا کے مقابلے میں شہری سہولتوں کی فراہمی اور اربن پلاننگ کے لیے خاطر خواہ اور بروقت اقدامات نہیں کیے جا رہے،رپورٹ

جمعہ 11 نومبر 2016 16:13

عالمی بینک نے کراچی کو دنیاکی10ناقابل رہائش شہروں کی فہرست میں شامل ..

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 نومبر2016ء) عالمی بینک نے کراچی کو درپیش سنگین چیلنجز کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے دنیاکی10 ناقابل رہائش شہروں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ورلڈ بینک کی کراچی میں جاری کردہ پاکستان ڈیولپمنٹ اپ ڈیٹ رپورٹ میں کراچی سٹی ڈائیگناسٹک کے عنوان سے خصوصی تجزیے میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں آبادی کے تیز ترین پھیلا کے مقابلے میں شہری سہولتوں کی فراہمی اور اربن پلاننگ کے لیے خاطر خواہ اور بروقت اقدامات نہیں کیے جا رہے۔

کراچی کی 50 فیصد سے زائد آبادی کچی آبادیوں پر مشتمل ہے جہاں آبادی میں دگنی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے۔ شہر میں بے ہنگم اور مخصوص علاقوں میں کی جانے والی تعمیرات مسائل میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ کراچی کے سب سے بڑے مسئلے پانی کی قلت کو حل کرنے کے لیے نہ تو کراچی اور نہ ہی صوبے کی سطح پر کوئی پالیسی موجود ہے شہری نظام یومیہ طلب کا صرف 55 فیصد پانی ہی فراہم کر پا رہا ہے پانی کا ضیاع اور بڑے پیمانے پر چوری عام ہے۔

(جاری ہے)

پانی کی قلت کا شکار صوبے کے سب سے بڑے شہر میں 43 فیصد پانی کی قیمت وصول نہیں کی جاتی جس کی مقدار 192 ملین گیلن یومیہ ہے۔کراچی میں سیوریج کے پانی کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لیے بھی سہولتوں کا فقدان ہے اور یومیہ 475 ملین گیلن فضلہ بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے براہ راست سمندر میں گرایا جا رہا ہے۔ اسی طرح کوڑے کچرے کی صرف 50 فیصد سے بھی کم مقدار کو لینڈ فل سائٹس میں ٹھکانے لگایا جاتا ہے باقی کچرا غیرمحفوظ طریقوں کی بنا پرماحول کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق کراچی میں قدرتی آفات اور حادثات سے نمٹنے کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہے۔ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں انتباہ کیا ہے کہ کراچی میں ناکافی ایمرجنسی اور ریسکیو اقدامات اور پلاننگ کے بغیر ہونے والی تعمیرات کی کثرت، ایمرجنسی اور ریسکیو اقدامات کے فقدان کی وجہ سے زیادہ شدت کے زلزلے کی صورت میں عمارتوں کی بڑی تعداد ملبے کا ڈھیر بن سکتی ہیں۔

ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں کراچی میں بڑھتی ہوئی آلودگی کو بھی شہر کا بڑا مسئلہ قرار دیا ہے جس میں فضائی آلودگی کی صورتحال کو انتہائی تشویشناک قرار دیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق کراچی میں کچرے میں صنعتی فضلے کو جلائے جانے اور مائع فضلے کو بغیر ٹریٹمنٹ ڈسچارج کیے جانے سے آلودگی کا مسئلہ تیزی سے شدت اختیار کررہا ہے پینے کے پانے میں سیسے کی زائد مقدارسے بچوں میں سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے آلودگی کی وجہ سے شہریوں کو معاشی نقصان کا بھی سامنا ہے۔

ورلڈ بینک نے کراچی میں ٹریفک کی بدنظمی اور پبلک ٹرانسپورٹ کے فقدان کو بھی شہرکا ایک بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔رپورٹ کے مطابق کراچی میں گاڑیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور موثر حکمت عملی کے فقدان کی وجہ سے مستقل ٹریفک جام کا سامنا ہے۔ شہر میں کوئی سرکاری پبلک ٹرانزٹ سسٹم سرے سے ہی موجود نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق کراچی میں کاروبار کو درپیش چیلینجز کی وجہ سے کراچی کی کاروباری مسابقت بھی ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں کم ہو رہی ہے۔

کراچی میں کاروبار پر اثر انداز ہونے والے عوامل میں انفرااسٹرکچر کے مسائل کے ساتھ سیاسی بے یقینی، بجلی کی لوڈشیڈنگ، کرپشن اور بھتا خوری جیسے مسائل بھی شامل ہیں ان سب مسائل کی وجہ سے کراچی میں کاروبار کرنا بھی دشوار ہورہا ہے۔ کراچی کی معیشت سندھ کے دیگر شہروں سے جڑی ہوئی ہے تاہم کراچی کا سندھ کے دیگر شہروں سے مضبوط تعلق ترقی اور روزگار کے مواقع مہیا کرنے کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔

کراچی کو سندھ کے دیگر شہروں کے ساتھ جوڑنے کے لیے سیاسی اور انتظامی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے ۔ ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ کراچی اب بھی ترقی کے لحاظ سے دنیا کے میگا سٹیز کا ہم پلہ ہوسکتا ہے تاہم اس کے لیے کراچی سٹی ڈیولپمنٹ پلان 2020 پر مرحلہ وار اور تسلسل کے ساتھ عمل درآمد کرنا ہوگا۔

متعلقہ عنوان :