تاریخ سازانتخابی اپ سیٹ کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا اصل امتخان اب شروع ہوگا- امریکا کی بری طرح تباہ حال میعشت کو بحال کرنا‘روزگارکی فراہمی‘صنعتوں کی بحالی‘بیرون ممالک منتقل ہونے والے امریکی سرمائے کی واپسی اور بے یقینی کی فضاءکو فوری ختم کرنے کے اقدامات شامل ہیں-

اگر ٹرمپ بے یقینی کی فضاءکو ختم کرنے اور مسلمانوں سمیت چھوٹی کیمونٹیزکا اعتماد بحال کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو امریکا کو مزید اقتصادی بدحالی کا سامنا کرنا پڑے گا-تجزیاتی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 9 نومبر 2016 16:40

تاریخ سازانتخابی اپ سیٹ کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا اصل امتخان اب شروع ہوگا- ..

واشنگٹن (اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-میاں محمد ندیم سے۔09 نومبر۔2016ء) ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے تاریخ سازاپ سیٹ کے بعد امریکا کا صدارتی انتخاب جیت لیا ہے مگر 70سالہ ٹرمپ کے لیے اصل امتخان اب شروع ہوگا اور وہ ہے امریکا کی بری طرح تباہ حال میعشت کو بحال کرنا‘روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور بے یقینی کی اس صورتحال کا خاتمہ جس کا امریکی قوم کے ساتھ ساتھ پوری دنیا پچھلے ایک سال سے شکار ہے-ٹرمپ کو یہ سارے مسائل 4سال کی مختصرمدت میں حل کرنا ہونگے-ضعیف العمری اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران عندیہ دے چکے ہیں کہ بیشتر امور ان کے نائب صدر سنبھالیں گے-ری پبلکن پارٹی کی سنیئرقیادت کے مفادات تیل اور اسلحہ سازی کی صنعت سے جڑے ہیں لہذا ڈونلڈٹرمپ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ ان طاقتور حلقوں کو ناراض کریں جوکہ کانگرس اور سینٹ میں بیٹھے ہیں -ٹرمپ کے اپنے کاروباری مفادات بھی دنیا بھر میں بکھرے ہیں اور صدرمنتخب ہونے کے بعد ان کی پہلی تقریر نے کسی حد تک انتخابی مہم کے دوران ان کی سیاسی تقاریر کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کی ہے-ڈونالڈ ٹرمپ دنیا بھر میں آفس ٹاورز، ہوٹل، کیسینوز، گاف کورسز اور مشہور تنصیبات کے مالک ہیں۔

(جاری ہے)

وہ ’ٹرمپ آرگنائزیشن‘ کے سربراہ اور صدر ہیں، جو ان کی جائیداد اور کاروباری مفادات پر مشتمل ہولڈنگ کمپنی ہے۔وہ نیویارک سٹی کے ’کوئینز بورو‘ میں پیدا ہوئے۔ ٹرمپ ’جمائکا اسٹیٹس‘ کے امیر ترین مضافات میں پلے بڑھے، وہ ریئل اسٹیٹ کی تعمیر و ترقی سے وابستہ رہے۔ ان کا انداز حاکمانہ رہا ہے، جو انھوں نے اپنے بیٹے کو منتقل کیا ہے۔

1968 میں ڈونالڈ ٹرمپ نے ’وارٹن اسکول آف فائننس‘ سے گریجوئیشن کی۔ان کے والد بروکلن اور کوئینز میں تعمیراتی منصوبوں سے منسلک رہے، جب کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے مین ہٹن میں بلند و بالا عمارات کھڑی کیں۔مین ہٹن میں ’بروکلن برج‘ سے باہر کام کرنا مشکل مرحلہ تھا، جہاں جرائم کی شرح بڑھی ہوئی تھی اور شہر ویران اور بے رونق تھا۔ لیکن، نوجوان ٹرمپ نے والد کے ذریعے کاروباری روابط قائم کیے۔

اس حمایت کے نتیجے میں، ٹرمپ کہتے ہیں کہ انھوں نے 10 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری سے اپنی ذاتی کمپنی قائم کی۔ 1970 کی دہائی میں، محکمہ انصاف نے ’ٹرمپ آرگنائزیشن‘ پر ’فیئر ہاوزنگ ایکٹ‘ کی خلاف ورزی کا الزام لگایا، جس کے ذریعے اقلیت کو ان کی عمارتیں کرائے پر لینے سے روکا گیا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اس مقدمے کا فیصلہ عدالت سے باہر طے کیا۔

بعد میں ایک اہم قدم کے طور پر ٹرمپ نے گرینڈ سینٹرل اسٹیشن کے ساتھ والا ایک ہوٹل خریدا، جو دیوالیہ قرار دیا جا چکا تھا۔ انھوں نے سات کروڑ ڈالر ادھار لیے اور نیو یارک سٹی سے ٹیکس کی مراعات مانگیں، اور تعمیر نو کے بعد انھوں نے اسے ’گرینڈ ہائٹ ہوٹل‘ کا نام دیا۔ٹرمپ ٹاور ان کی پہچان بنا، جو 20 کروڑ ڈالر مالیت کے اپارٹمنٹ اور آڑھت کے کاروبار پر مشتمل ایک تنصیب ہے، جس کی تعمیر میں گلابی رنگ کا سنگ مرمر استعمال ہوا، جس کی 58 منزلیں ہیں، جب کہ آبشار 18 میٹر بلند ہے۔

ایٹلانٹک سٹی نیوجرسی میں کیسینوزکی تعمیر کی وجہ سے بھی ٹرمپ کو شہرت ملی۔ پہلے ٹرمپ پلازا، پھر ٹرمپ کیسل‘ اور تاج محل تعمیر کیا جس پر ایک ارب ڈالر خرچ آئے۔ لیکن، بعد میں دیوالیہ پن کا شکار ہوئے۔1990 میں جب جائیداد کی مارکیٹ کریش ہوئی تو ان کی ملکیت 1.7 ارب ڈالر سے گِر کر 50 کروڑ ڈالر رہ گئی۔کڑکی سے بچنے کے لیے، انھوں نے رقوم ادھار لیں، اور نئے سرمایہ کار تلاش کیے۔

لیکن گھر کے محاذ پر طلاق کے معاملے سے نہ بچ سکے۔ ذرائع ابلاغ میں انھیں ’دی ڈونالڈ‘ سے پہچانا جانے لگا۔ انھوں نے اپنی پہلی بیوی اوانا کو طلاق دی، جن سے ان کے تین بچے ہیں۔ بعد میں انھوں نے مارلہ میپلز سے شادی کی اور طلاق دی۔ ٹرمپ نے 2005 میں اپنی موجودہ بیوی، سلووینا سے تعلق رکھنے والی ماڈل، ملانیا سے شادی کی۔ان کے ریئلٹی ٹی وی شو ’دِی اپرنٹس‘ نے ٹرمپ کو ایک اداکار کا درجہ دیا۔

ٹرمپ کی املاک کے منتظم بننے کی خواہش رکھنے والے سخت مقابلے کی دوڑ میں شامل ہوئے ناکام ہونے والوں کی فائل پر ٹرمپ ’یو آر فائرڈ‘ تحریر کیا کرتے تھے۔اس شو کی وجہ سے ٹرمپ کو 20 کروڑ ڈالر سے زائد کی کمائی ہوئی۔ 80 کی دہائی میں، پہلی بارٹرمپ نے کھلے عام سیاست میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ انھوں نے ’ریفارم پارٹی‘ میں شمولیت اختیار کی پھر ڈیموکریٹک پارٹی میں شامل ہوئے اور پھر آزاد سیاست اپنائی۔

2012ءمیں انھوں نے ری پبلیکن ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اِس بات کا عہد کیا کہ وہ ملک کو پھر سے عظیم بنائیں گے۔امیدوار کے طور پر متنازع بیانات ٹرمپ کی شہرت کا باعث بنے جن میں انھوں نے میکسیکو کے تارکین وطن پر امریکہ میں منشیات کی اسمگلنگ اور دیگر مسائل کا ذمہ دار ہونے کا الزام شامل ہے۔ان کا متنازع حل امریکی سرحد پر دیوار تعمیر کی جائے گی جس پر اٹھنے والے اخراجات میکسیکو بھرے گا۔

کیلی فورنیا میں شوٹنگ کے واقعے کے بعدان کا اِس سے بھی زیادہ متنازع بیان یہ مطالبہ تھا کہ مسلمانوں کا امریکہ میں داخلہ بند کیا جائے۔ پھر بھی ری پبلیکنز میں ان کی حمایت میں اضافہ دیکھا گیا جن کا کہنا ہے کہ روزگار کے زیادہ مواقع پیدا کرنے اور عام امریکی کے لیے مواقع کی فراہمی کے لیے وہ ٹرمپ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اب جبکہ ٹرمپ صدرمنتخب ہوچکے ہیں تو ان کے سامنے یہ چیلنجزموجود ہیں کہ وہ اپنے سپورٹرزسے کیئے گئے وعدوں پر کس حد تک پورا اترتے ہیں-امریکا میں فوری حل طلب مسائل میں روزگارکی فراہمی‘صنعتوں کی بحالی‘بیرون ممالک منتقل ہونے والے امریکی سرمائے کی واپسی اور بے یقینی کی اس فضاءکو فوری ختم کرنے کے اقدام کرنا ہیں جو ان کے انتخابی مہم کے دوران بیانات سے پیدا ہوئی اگر ڈونلڈٹرمپ بے یقینی کی فضاءکو ختم کرنے اور مسلمانوں سمیت چھوٹی کیمونٹیزکا اعتماد بحال کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو امریکا کو مزید اقتصادی بدحالی کا سامنا کرنا پڑے گا-

متعلقہ عنوان :