سندھ وسائل میں آگے لیکن ترقی میں سب سے پیچھے ہے ‘عبداللہ حسین ہارون

پاکستان کے مالی قرضہ جات میں 40 فیصد اضافہ ہو ا ہے جس میں سندھ کو22 فیصدادا کرنا پڑ رہا ہے٬سندھ لٹریچر فیسٹول سے خطاب

پیر 7 نومبر 2016 19:08

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 نومبر2016ء) کراچی کے مقامی ہوٹل میں پہلے ’سندھ لٹریچر فیسٹول‘ میںعلاقائی سیاست کی سرگرمیوں کی خاص بیٹھک میں سندھ کا معروف سیاسی خاندان ہارون فیملی کے قابل فخرچشم وچراغ اور پاکستان کے اقوام متحدہ میں سابق مندوب عبداللہ حسین ہارون نے کہا ہے کہ ہمارے ملک کے آئین میں بہت ساری تبدیلیاں آچکی ہیں خاص طور پر 18 ویں ترمیم کے بعد اائین کی شکل تبدیل ہو چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے مالی قرضہ جات میں 40 فیصد اضافہ ہو ا ہے جس میں سندھ کو22 فیصدادا کرنا پڑ رہا ہے ۔جبکہ لئے گئے قرضوں میں سے سندھ کو وفاق نے کوئی حصہ نہیں دیا ۔پنجاب اور خیبر پختونخوا میں روڈ راستے اور میٹرو وے تو بن گئے لیکن سندھ میں مٹی اڑرہی ہے راستوں پر‘سندھ کے بڑے بڑے علاقے آج باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو بیچے جا رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

ایسا تو بنگال میں بھی ہوا تھا ۔پیداوار اگر دوسروں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے تو پھر قہر دور نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ یہ وہ ہی سندھ ہے جس نے پاکستان بننے کے وقت میں ہندوستان سے آئے ہوئے 20 لاکھ لوگوں کی خوراک کا بندوبست کیا تھا اور آج اسی سندھ میں لوگ دووقت کی روٹی کے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔چابی ان کے پاس ہے جنہوں نے K الیکٹرک بیچی۔

اور اسٹیل مل ‘ پی آئی اے اور دیگر ہماری قیمتی زمینیں بیچ رہے ہیں۔ہماری سرزمین پر بڑی تبدیلی آرہی ہے ۔جس کے اشارے میں 7 سال پہلے دے چکا ہوں ۔عبداللہ حسین ہارون نے بتایا کہ جب پاکستان بنا تو سندھ میں کپاس کی پیداوار پنجاب کے برابر تھی۔آج پنجاب کی پیداوار 10 فیصد سندھ سے اوپرہے۔این ایف سی کے پول سے سندھ کو پوری رقم نہیں مل رہی ہے جو مل رہی ہے اس کا حساب کتاب نہیں ہے۔

عبداللہ حسین ہارون کا کہنا تھا کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ فلاں فلاں شہر بن رہے ہیں ۔میں سوال کررہا ہوںکہ وہاں زمینیں کون خرید رہاہے سندھ کے لوگ تو اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ زمین خرید سکیں۔انہوں نے بتایا کہ میں حال ہی میں کیٹی بندر گیا تھا ۔میں نے وہاں لوگوں سے پوچھا کہ یہاں جاموٹ رہتے تھے وہ کہاں چلے گئے ۔تومجھے بتایا گیاکہ انہوں نے اپنی زمینیں بیچ دیں ہیں اور وہ اب یہاں نہیں رہ رہے۔

تھر میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے ۔زمینیں بیچی جا رہی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ چین اور روس مل کر ہوا پھونک رہے ہیں وہ ہر جگہ نظر آنی چاہیے۔سندھ مین تو ترقی تو نظر نہیں آرہی ہے ۔صوبے خود مختار ہو گئے ہیں اب صوبوں کو ذمہ داری نبھانی ہو گی ۔کراچی بندرگاہ بھی ہم سے نکلتی جا رہی ہے ۔میں نے چینیوں سے پوچھا کہ سندھ مین دو بندرگاہیں ہیں وہ استعمال کیوں نہیں کرتے ۔

انہوں نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا ۔انہوں نے کہا کہ سندھ میں ہر چیز ہے تیل بھی ہے گیس بھی موجود ہے توانائی کے وسائل بھی ہیں ۔پھر سندھ سارے صوبوں سے وسائل میں آگے ہوتے ہوئے بھی پیچھے کیوں ہے پاکستان کی 50 فیصد صنعتیں پہلے سندھ میں تھیںاور اب وہ 15 فیصد رہ گئی ہیں۔جو لوگ کشکول آگے کر کے دوسروں سے خیرات لیتے ہیں ان کی عزت کون کرے گا ۔قرضے لے کر منصوبے شروع کئے جاتے ہیں پھر بھی کوئی اسکیم مکمل نہیں ہوتی ہے ۔

سندھ میں روڈ راستے نہیں ہیں مٹی اڑ رہی ہے ۔اب تعلیم و صحت تو دور کی بات ہے لوگ روٹی کیلئے پریشان ہیں۔ہر چیز چین سے آرہی ہے انگور بھی چین سے پہنچ رہے ہیںاب لگ رہا ہے کہ بہہ بھی چین سے آئیں گے۔انہوں نے کہا کہ صورتحال انتہائی خراب ہے خدا کیلئے اب جاگ جائو دھرتی کو سنبھالو۔ کل کی خبر نہیں کہ ہم کہاں پہنچیں گے۔ عبداللہ حسین ہارون نے قیام پاکستان کی تاریخ اور سندھ کی صورتحال پر بات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی جنگ میں کانگریس نے برطانوی راج کی مدد نہیں کی تھی اس لیے وہ پورا انڈیا کانگریس کو نہیں دینا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے اس کو سزا دینے لیے انڈیا کی تقسیم کا پلان بنایا۔حسین ہارون نے اپنے والد کی یادداشتیں بیان کرتے ہوئے بتایا کہ آغا خان انڈیا کے پہلے آئین کے لیے لندن گول میز کانفرنس کے سربراہ کیسے بنے۔انھوں نے بتایا کہ محمد علی جناح اور سلطان محمود آغا خان کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ان کے والد عبداللہ ہارون دونوں کے مشترکہ دوست تھے٬ آغا خان نے انھیں بلایا اور کہا کہ آپ ہمارے مشترکہ دوست ہیں جناح کو کہیں کے پاکستان کی تحریک جاری رکھے اور انھوں نے یہ پیغام جناح کو پہنچایا٬ جس پر جناح نے انہیں کہا کہ آغا خان کو کہو کو لندن میں گول میز کانفرنس کی سربراہی کریں۔

حسین ہارون کے مطابق جب ان کے والد نے اس بات سے آغا خان کو آگاہ کیا تو انھوں نے کہا کہ گاندھی جی اکثریت کے رہنما ہیں اس لیے انہیں اس وفد کی قیادت کرنی چاہیے۔ ’جب حتمی فیصلے کے لیے اجلاس جاری تھا تو جناح کام کا کہہ کر اٹھ گئے٬ آغا خان نے گاندھی کا نام تجویز کیا جس پر گاندھی نے کہا کہ آغا خان سے بڑی شخصیت کوئی اور ہے کیا۔ جس پر آغا خان نے کہا کہ اگر گاندھی جی یہ سوچتے ہیں تو وہ اس سربراہی کے لیے راضی ہیں۔

متعلقہ عنوان :