پاناما معاملہ کیس ٬ْ وزیر اعظم کے بچوں کے جوابات جمع ٬ْ سپریم کورٹ نے تمام فریقین سے دستاویزی ثبوت طلب کرلئے

تینوں میں سے کوئی بھی نواز شریف کے زیر کفالت نہیں اور نہ ہی کسی کے پاس کوئی عوامی عہدہ ہے ٬ْوکیل وزیر اعظم کم سے کم وقت میں معاملے کو نمٹانا چاہتے ہیں ٬ْ دستاویزی شواہد جمع کرانے کیلئے 15 روز کا وقت مانگنے کی حکومتی استدعا مسترد

پیر 7 نومبر 2016 13:42

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 نومبر2016ء) سپریم کورٹ آف پاکستان میں وزیراعظم محمد نواز شریف کے بچوں نے اپنے جوابات جمع کرادیئے ہیں جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے تمام فریقین سے دستاویزی ثبوت طلب کرتے ہوئے کہاہے کہ وہ جائیداد اور رقوم کی منتقلی سے متعلقہ شواہد کا جائزہ لینے کے بعد ہی فیصلہ کریگی کہ اس معاملے کی تحقیقات کیلئے کمیشن تشکیل دیا جائے یا نہیں ٬ْوزیر اعظم خصوصی عہدہ رکھتے ہیں ٬ْ عدالت فی الحال صرف وزیر اعظم کے معاملے کو دیکھے گی ٬ْ معاملے میں جن دوسرے افراد کے نام ہیں ان کی بھی تحقیقات ہوں گی جبکہ ججز نے وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مطمئن کریں کہ خریداری قانون کے مطابق تھی ٬ْقانون کے مطابق رقم بیرون ملک منتقل کی گئی٬ عدالت کو مطمئن کریں اور سکون سے گھر چلے جائیں ٬ْپیشگی دستاویزی ثبوت طلب کرنے سے مجوزہ کمیشن کو کم سے کم وقت میں فیصلہ کرنے میں مدد ملے گی٬ معاملے کو عام کیس کی طرح سنا تو مقدمہ سالوں چلے گا ٬ْوزیر اعظم کہہ چکے ہیں حکومت کے خلاف فیصلہ آیا تو عہدہ چھوڑ دینگے ٬ْ ہم کلین چٹ بھی دے سکتے ہیں ٬ْ مخالف فیصلہ بھی آ سکتا ہے ٬ْہم نے کڑوی گولی نگلی ہے٬ بادشاہ بن کر نہیں بیٹھے کہ جس کیخلاف چاہیں حکم دیں ٬ْآئین اور قانون کے مطابق حکم دیں گے ٬ْ عدالت کا کام حکومت چلانا نہیں ٬ْمحض الزامات کی بنیاد پر ممبر پارلیمنٹ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کاحکم نہیں دے سکتے٬ زیادہ گہرائی میں جائیں گے اور نہ ہی پاناما کا دورہ کریں گے ٬ْہم کسی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنے والے نہیں ٬ْالزامات پر نہیں آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

پیر کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم کیخلاف پاکستان تحریک انصاف ٬ْ جماعت اسلامی ٬ْ عوامی مسلم لیگ ٬ْجمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر درخواستوں پر چیف جسٹس مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ ٬ْجسٹس امیرہانی مسلم ٬ْجسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی ۔

سماعت میں شرکت کیلئے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان٬ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور دیگر فریقین عدالت عظمیٰ پہنچے ٬ْ پاکستان تحریک انصاف نے ڈاکٹر بابر اعوان کو اپنے وکلاء کی ٹیم میں شامل کر لیا ہے اور وہ پاناما کیس میں پی ٹی آئی کی جانب سے وزیراعظم اور ان کے بچوں کیخلاف کیس میں دلائل دینگے۔کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم کے بچوں کے جواب جمع کرا دیئے گئے ہیں جس پر وزیر اعظم کے بچوں حسن نواز ٬ْ حسین نواز شریف اور مریم صفدر کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے جوابات پیش کیے۔

سلمان اسلم بٹ نے عدالت کو بتایا کہ تینوں میں سے کوئی بھی نواز شریف کے زیر کفالت نہیں اور نہ ہی کسی کے پاس کوئی عوامی عہدہ ہے انہوں نے کہا کہ مریم صفدر اپنا ٹیکس ریٹرن ادا کرتی ہیں٬ انہوں نے کسی بھی متذکرہ پراپرٹی کی قیمت ادا نہیں کی۔انہوں نے بتایا کہ مریم صفدر نیلسن اور نیسکول کمپنی کی ٹرسٹی ہیں اور انہوں نے یہ الزام مسترد کیا کہ وہ کسی آف شور کمپنی کی مالک ہیں۔

وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز نے اپنے جواب میں موقف اپنایا کہ وہ 16 سال سے بیرون ملک قانون کے مطابق کام کررہے ہیں ٬ْ جنوری 2005 سے قبل متذکرہ جائیدادیں ان کی نہیں تھیں۔سلمان اسلم بٹ نے بتایا کہ حسن اور حسین نے عمران خان کی درخواست میں لگائے گئے تمام الزامات مسترد کردیئے۔اس موقع پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے سلمان اسلم بٹ سے استفسار کیا کہ آپ نے جواب کیساتھ تفصیلات کیوں فراہم نہیں کیں جس پر انہوں نے کہا کہ وقت مختصر تھا البتہ مجوزہ کمیشن میں تمام دستاویزات فراہم کریں گے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان اسلم بٹ سے پوچھا کہ ٹرسٹی کا کام کیا ہوتا ہی جس پر انہیں بتایا گیا کہ ٹرسٹی کا کام اپنی خدمات فراہم کرنا ہوتا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ مطمئن کریں کہ خریداری قانون کے مطابق تھی ٬ْعدالت کو مطمئن کریں قانون کے مطابق رقم بیرون ملک منتقل کی گئی٬ آپ عدالت کو مطمئن کریں اور سکون سے گھر چلے جائیں۔

سماعت کے دور ان حکومت کی جانب سے درخواست کی گئی کہ انہیں دستاویزی شواہد جمع کرانے کیلئے 15 روز کا وقت دیا جائے تاہم عدالت عظمیٰ نے درخواست مسترد کردی۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے کہ حکومت کے پاس تو پہلے ہی دستاویزی شواہد موجود ہیں٬ ہم کم سے کم وقت میں معاملے کو نمٹانا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پیشگی دستاویزی ثبوت طلب کرنے سے مجوزہ کمیشن کو کم سے کم وقت میں فیصلہ کرنے میں مدد ملے گی٬ اس معاملے کو عام کیس کی طرح سنا تو مقدمہ سالوں چلے گا۔

چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان سے استفسار کیا کہ وہ اپنی رائے بتائیں کہ کیا معاملے پر کمیشن تشکیل دیا جائے یا نہیں چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کمیشن کی بجائے دستاویزات منگوا کر جائزہ لیا جائی انہوں نے کہاکہ ہم نہیں چاہتے کہ تاخیر ہمارے کھاتے میں آئے ٬ْمناسب وقت نہ دیا تو کل کہا جائے گا کہ کمیشن نے وقت نہیں دیا۔اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے کہا کہ ملکی صورتحال میں اداروں پر بداعتمادی بڑھ گئی ہے اور نیب٬ ایف آئی اے اور ایف بی آر کو برائی نظر ہی نہیں آتی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کے خلاف فیصلہ دیا وہ پھر بھی عہدے پر برقرار رہے ٬ْعدالت نے بعد میں حکم دیا کہ آپ وزیراعظم نہیں رہے٬ہم کلین چٹ بھی دے سکتے ہیں اور مخالف فیصلہ بھی آ سکتا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حکومت کے خلاف فیصلہ آیا تو وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ وہ عہدے پر نہیں رہیں گے۔چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیا تحقیقات کرنا عدالت کا کام ہے٬ ہم نے کڑوی گولی نگلی ہے٬ بادشاہ بن کر نہیں بیٹھے کہ جس کے خلاف چاہیں حکم دیں٬ آئین اور قانون کے مطابق حکم دیں گے٬ حاکم وقت کی صورتحال دیگر افراد سے مختلف ہے٬ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک شخص نے کٹہرے میں لا کھڑا کیا اور سوال اٹھایا۔

انہوں نے کہا کہ پاناما لیکس میں جج کا نام بھی آیا ہے لیکن جج کے خلاف تحقیقات کا طریقہ کار الگ ہے٬ جو عوامی عہدے پر ہیں ان کا کیس چلتا رہے گا ۔اس موقع پر درخواست گزار طارق اسد نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ کیس عمران خان اور نواز شریف کے خلاف ہے۔چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ کتنے لوگ آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں جن کے نام اسکینڈل میں آئے ہیں جس پر طارق اسد نے کہا کہ 400 کے قریب کمپنیاں اور لوگوں کے نام پاناما لیکس میں شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 800 لوگوں کے خلاف تحقیقات ہوں تو یہ کام کئی سال چلے گا۔نجی ٹی وی کے مطابق عمران خان کے وکیل حامد خان نے موقف اپنایا کہ تمام دستاویزات عدالت میں پیش کی جائیں جس پر وزیراعظم کے وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ ہم کوئی دستاویزات نہیں چھپا رہے ٬ْدستاویزات اس وقت ہمارے پاس موجود نہیں ہیں ٬ْ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ دستاویزات کمیشن کے روبرو پیش کرنی ہیں٬ دستاویزات بیرون ملک سے منگوانی ہیں اس لئے 15 روز کا وقت دیا جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تمام دستاویزات آئندہ منگل تک عدالت میں جمع کرائی جائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کا کام حکومت چلانا نہیں ہے٬ محض الزامات کی بنیاد پر ممبر پارلیمنٹ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کاحکم نہیں دے سکتے٬ زیادہ گہرائی میں جائیں گے اور نہ ہی پاناما کا دورہ کریں گے٬ الزامات پر نہیں آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ زیر سماعت مقدمے پر تبصرہ نہیں کرنا چاہیے لیکن میڈیا پر تو کچھ اینکرز نے فیصلہ بھی دے دیا ہے۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا کہ نواز شریف نے مریم نواز کو 2 کروڑ 48 لاکھ روپے دیئے٬ کیا ان کی بیٹی معذور تھی یا اس کو تعلیم کیلئے ضرورت تھی جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ شیخ صاحب آپ نے وکالت کی ڈگری لی ہے چیف جسٹس نے کہا کہ شیخ صاحب آپ کی انہی باتوں کی وجہ سے کمیشن بنا رہے ہیں٬ آپ کے انہی الزامات کی تحقیق ہوگی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے پاناما کیس کو اولین ترجیح پر رکھا ہے ٬ْ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ایک راستہ یہ ہے کہ کمیشن کے سامنے تمام دستاویزات رکھی جائیں اور دوسرا راستہ ہے کہ تمام دستاویزات منگوا کر کمیشن کو دی جائیں٬ ہم کسی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنے والے نہیں۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ میرے موکل نے عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف درخواستیں دائرکر رکھی ہیں٬ ان کی درخواستوں کو بھی ساتھ سنا جائے اگر مناسب ہوا تو درخواست کو اسی بینچ میں لگائیں گے۔

بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ کمیشن تشکیل دینے کے خلاف درخواست دائر کر رکھی ہے ٬ْ پہلے میری درخواست کی سماعت کی جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جتنی درخواستیں دائر کی گئی ہیں سب کی سماعت کریں گے۔واضح رہے کہ حنیف عباسی نے عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کیلئے درخواست دائر کر رکھی ہے اور اکرم شیخ حنیف عباسی کے وکیل ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 15 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے تمام فریقین سے کیس سے متعلق تمام دستاویزات طلب کر لیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 15نومبر کے بعد مزید مہلت نہیں دیں گے کہ کہا جائے کہ فلاں فلاں دستاویز جمع کرانی ہے٬ تمام فریقین کو شواہد آئندہ سماعت سے قبل جمع کرانا ہوں گے۔چیف جسٹس پاکستا ن نے ریمارکس دیئے کہ کمپنیوں کی ملکیت تسلیم کرنے کے بعد عدالت کو مطمئن کرنا مالکان کا کام ہے۔قبل ازیں 3 نومبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ کیا تھا کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے ایک رکنی کمیشن قائم کیا جائے گا جو پاناما پیپرز میں سامنے آنے والے انکشافات کی تحقیقات کرے گا۔مجوزہ پاناما گیٹ کمیشن کی سربراہی سپریم کورٹ کا جج کرے گا اور اسے سپریم کورٹ کے اختیار حاصل ہوں گے۔