پاناما لیکس : فریقین کو 15 نومبر تک دستاویزی شواہد جمع کروانے کا حکم -عدالت کی فی الحال ترجیح وزیر اعظم کے خلاف الزامات کو ہی دیکھنا ہے۔چیف جسٹس - مریم نواز، حسن نواز اور حسین نوازکے بیان عدالت میں جمع کروادیئے گئے- عدالت کو مطمئن کریں کہ خریداری قانون کے مطابق تھی اور قانون کے مطابق رقم بیرون ملک منتقل کی گئی اس کے بعد آپ سکون سے گھر چلے جائیں۔دستاویزات جمع نہ کروا کرآپ مشکل میں پھنس سکتے ہیں۔جسٹس آصف کھوسہ- 800 لوگوں کے خلاف تحقیقات ہوں گی تو اسے آپ 20 سالہ منصوبہ بنا دیں گے اور حاکم وقت کا معاملہ دوسروں سے الگ ہوتا ہے۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے ریمارکس

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 7 نومبر 2016 10:16

پاناما لیکس : فریقین کو 15 نومبر تک دستاویزی شواہد جمع کروانے کا حکم ..

ا سلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔07 نومبر۔2016ء) پاکستان کی سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کے معاملے میں فریقین کو 15 نومبر تک دستاویزی شواہد جمع کروانے کا حکم دیا ہے جبکہ چیف جسٹس نے واضح کیا ہے کہ عدالت کی فی الحال ترجیح وزیر اعظم کے خلاف الزامات کو ہی دیکھنا ہے۔وزیراعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین نے پیر کو اس معاملے کے حوالے سے اپنے جواب بھی داخل کروا دیے۔

سپریم کورٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ جائیداد اور رقوم کی منتقلی سے متعلقہ شواہد کا جائزہ لینے کے بعد ہی یہ فیصلہ کرے گی کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دیا جائے یا نہیں۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے پیر کو سماعت کا دوبارہ آغاز کیا تو سلمان اسلم بٹ ایڈووکیٹ نے وزیرِ اعظم نواز شریف کے بچوں مریم نواز، حسن نواز اور حسین نواز کی جانب سے جوابات داخل کیے۔

(جاری ہے)

ان جوابات میں کہا گیا ہے کہ ان تینوں میں سے کوئی بھی نواز شریف کے زیرِ کفالت نہیں اور نہ ہی کسی کے پاس کوئی عوامی عہدہ ہے۔ اس پر بینچ میں شامل ایک جج نے کہا یہ ہمیں پہلے سے معلوم ہے آپ آگے بتائیں۔مریم صفدر کی جانب سے داخل کیے گئے جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان پر آف شو کمپنیوں کی ملکیت کے بارے میں لگائے گئے الزامات بےبنیاد ہیں اور وہ کسی جائیداد کی مالک نہیں۔

جواب کے مطابق مریم 2011 میں بھی وزیر اعظم کی کفالت میں نہیں تھیں تاہم ان کے وکیل نے اعتراف کیا کہ وہ نیلسن اور نیس کام نامی کمپنیوں کی ٹرسٹی ہیں تاہم وہ ان آف شور کمپنیوں سے کوئی فائدہ نہیں لیتیں۔حسین نواز نے اپنے جواب میں موقف اپنایا کہ وہ 16 سال سے بیرون ملک قانون کے مطابق کاروبار کررہے ہیں اور سنہ 2005 سے قبل متذکرہ جائدادیں ان کی نہیں تھیں۔

تاہم انھوں نے اپنے والد کو ایک مرتبہ خطیر رقم بطور تحفہ دینے کا اعتراف کیا۔اس موقع پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے سلمان اسلم بٹ سے استفسار کیا کہ جواب کے ساتھ دستاویزات کیوں جمع نہیں کروائی گئیں جس پر انھوں نے کہا کہ وقت مختصر تھا البتہ مجوزہ کمیشن میں تمام دستاویزات فراہم کر دی جاسکتی ہیں۔اس پر جسٹس آصف نے ریمارکس میں کہا کہ اگر آپ خدانخواستہ ایسا نہیں کر سکے تو مشکل میں پھنس سکتے ہیں۔

اس کا مطلب ہے آپ کچھ چھپا رہے ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ عدالت کو مطمئن کریں کہ خریداری قانون کے مطابق تھی اور قانون کے مطابق رقم بیرون ملک منتقل کی گئی اس کے بعد آپ سکون سے گھر چلے جائیں۔حسن نواز نے بھی اپنے جواب میں عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ 20 سال سے بیرون ملک مقیم ہیں اور قانونی طریقے سے اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ایک درخواست گزار طارق اسد ایڈووکیٹ سے پوچھا کہ کتنے لوگ آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں جن کے نام سکینڈل میں آئے ہیں۔

اس پر طارق اسد نے کہا کہ 400 کے قریب کمپنیوں اور لوگوں کے نام پانامہ لیکس میں شامل ہیں۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 800 لوگوں کے خلاف تحقیقات ہوں گی تو اسے آپ 20 سالہ منصوبہ بنا دیں گے اور حاکم وقت کا معاملہ دوسروں سے الگ ہوتا ہے۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے سماعت کے دوران بعض وکلاءکی جانب سے ان تحقیقات میں وزیراعظم نواز شریف کے ہمراہ دیگر افراد کو بھی شامل کرنے کی استدعا کے جواب میں کہا کہ وزیر اعظم کی پوزیشن دیگر افراد سے مختلف ہے۔

وزیر اعظم نے خود کو تحقیقات کے لیے پیش کر دیا ہے۔ ہم پِک اینڈ چوز نہیں کریں گے۔ ہم یہاں بادشاہ بن کر نہیں بیٹھے ہیں وہی کریں گے جس کی اجازت قانون اور آئین دیتا ہے۔عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل حامد خان سے دریافت کیا کہ ان کے پاس اس مقدمے سے جڑے مزید کوئی شواہد ہیں تو ان کا جواب تھا کہ انہوں نے سب پہلے ہی جمع کروا دیے ہیں۔عدالت کا کہنا تھا کہ اس کے پاس دو راستے ہیں کہ وہ دستاویزی شواہد کا خود جائزہ لے کر فیصلہ کرے یا پھر شواہد دیکھ کر کمیشن تشکیل دے دے جو ان کے حوالے سے تحقیقات کرے۔

ہم حامد خان کا اصرار رہا کہ یہ کمیشن کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ مزید شواہد حاصل کرے۔حکومت کی جانب سے دستاویزی شواہد جمع کرانے کے لیے 15 روز کا وقت مانگا گیا تاہم عدالت نے یہ استدعا مسترد کر دی۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس تو پہلے ہی دستاویزی شواہد موجود ہیں اور عدالت کم سے کم وقت میں معاملے کو نمٹانا چاہتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پیشگی دستاویزی ثبوتوں سے مجوزہ کمیشن کو کم سے کم وقت میں فیصلہ کرنے میں مدد ملے گی اور اس معاملے کو عام کیس کی طرح سنا گیا تو مقدمہ سالوں چلے گا۔اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے کہا کہ ملکی صورتحال میں اداروں پر بداعتمادی بڑھ گئی ہے، وفاقی تحقیقاتی اداروں نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو برائی نظر ہی نہیں آتی۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حکومت کے خلاف فیصلہ آیا تو وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ وہ عہدے پر نہیں رہیں گے۔

سپریم کورٹ میں پیر کو ہونے والی سماعت میں شرکت کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، جہانگیر ترین اور شیرین مزاری اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور دیگر فریقین عدالت میں موجود تھے۔عدالت نے شیخ رشید کو بھی بات کرنے کی اجازت دی جس پر انھوں نے کہا کہ وہ پریکٹس نہیں کرتے لہٰذا کوئی اگر غلطی ہو تو درگزر کی جائے۔انھوں نے وزیر اعظم کی جانب سے دستاویزات جمع نہ کرنے کی شکایت کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ یہی دیکھنے کے لیے کمیشن پر غور کر رہے ہیں۔

عدالت نے مقدمے کی سماعت 15 نومبر تک ملتوی کر دی ہے۔خیال رہے کہ سپریم کورٹ کا لارجر بینچ پاکستان تحریکِ انصاف کے علاوہ حزبِ مخالف کی دیگر جماعتوں جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور دیگر فریقین عدالت میں موجود تھے۔

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ وزیراعظم خود کو احتساب کے لیے پیش کرچکے ہیں۔اس موقع پر نون لیگ کے راہنما طارق فضل چوہدری نے کہا کہ تحریک انصاف سڑکوں پر عدالت لگانے کی بہت شوقین ہے،پی ٹی آئی سے گزارش ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی عدالت لگائے۔نون لیگ کے رہنما طلال چوہدری نے کہا کہ پہلے نواز شریف کو ایٹمی دھماکوں پر نشانہ بنایا گیا اب اب سی پیک پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس کے پاس ثبوت ہے وہ بات کرے، نواز شریف کو مائنس کرنے کی باتیں کرنے والے مسترد ہوچکے ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف،جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔حکومت کی جانب سے کیس کی سماعت کے دوران مریم نواز ، حسین نواز اور حسن نواز نے عدالت میں جواب داخل کروائے گئے۔

وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے جواب میں کہا گیا ہے کہ حسین نواز16اورحسن نواز22 سال سے پاکستان سے باہر ہیں۔جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ تینوں بچے مریم نواز،حسین نواز اور حسن نواز عاقل اور بالغ ہیں۔والد نوازشریف کا بیٹوں کے کاروبارمیں کوئی کردار ہے نا لندن جائیدادوں سے کوئی تعلق ہے۔سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں جہانگیر ترین نے کہا کہ پوری قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں ،15 سے 20 دن میں کیس نمٹنا چاہیے۔شیخ رشید کا کہناتھاکہ سارے ثبوت اورسیاسی تابوت یہاں سے نکلیں گے،سپریم کورٹ سے پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین فیصلہ آئے گا۔