اسلام آباد میں آئندہ ہونیوالے سی سی آئی اجلاس میں وفاقی حکومت سے تمام زیر التوا مسائل بارے بات کروں گا٬ وزیراعلیٰ سندھ

کراچی شہر میں گھریلو استعمال کیلئے 1200کیوسک اضافی پانی کی ضرورت ہے٬ وفاقی حکومت سے پانی مختص کرنے کیلئے بات کرینگے سی سی آئی نے فیصلہ کیا تھا وفاقی حکومت رواں این ایف سی ایوارڈ 2016تک فنڈنگ جاری رکھے گی مگر فنڈز فراہم نہیں کئے گئے٬ اجلاس سے خطاب

بدھ 2 نومبر 2016 22:04

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 02 نومبر2016ء) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وہ اسلام آباد میں آئندہ ہونے والے سی سی آئی کے اجلاس میں وفاقی حکومت سے تمام زیر التوا مسائل کے حوالے سے بات کرینگے۔انہوں نے یہ بات نیو سندھ سیکریٹریٹ میں سی سی آئی ایشوز پر غور کے لئے بلائے گئے خصوصی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔

اجلاس میں صوبائی وزیر ڈاکٹر سکندر میندھرو٬ میر ہزار خان بجارانی ٬ ممتاز جکھرانی ٬ سید سردار شاہ٬ غلام قادر ملکانی٬ مرتضی وہاب٬ چیف سیکریٹری سندھ محمدصدیق میمن٬ متعلقہ سیکریٹریز اور دیگر افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ کراچی شہر میں گھریلو استعمال کے لئے 1200کیوسک اضافی پانی (650MGD) کی ضرورت ہے لہذاسی سی آئی کے اجلاس میں وفاقی حکومت سے کہا جائیگا کہ وہ دریائے سندھ کے سسٹم سے کراچی شہر کے لئے پانی مختص کرے ۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی دنیا کا ساتواں بڑا گنجان آباد شہر ہے اور اسکے دنیا میں اربن گروتھ ریٹ بہت زیادہ ہے انہوں نے کہاکہ گھریلو پانی کا استعمال پر فی کسشرح نیچے آئی ہے اور یہ 12.75گیلن فی کس روزانہ (G/C/D) ہوگئی ہے جبکہ بین الاقوامی معیار 40گیلن فی کس ہے لہذا یہ مسئلہ بھی سی سی آئی اجلاس میں اٹھایا جائیگا۔ اجلاس میںاس بات پر بھی اتفاق رائے قائم کیا گیا کہ وہ سی سی آئی کے اجلاس میں چھٹی مردم شماری اور گھر شماری کے مسئلے کو بھی اٹھائیںگے اور انہوں نے کہا کہ صوبہ سندھ میں مردم شماری پاک آرمی اور رینجرز کی مدد سے کی جاسکتی ہے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ 2ملین افغانیوں کے ساتھ ساتھ 1.5ملین اضافی تارکین و طن اس وقت صوبہ سندھ میں نارا کے پاس رجسٹرڈ ہیں لہذا انہیں مردم شماری سے باہر رکھنے کے لئے تمام تر ضروری اقدامات کئے جانے چاہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اجلاس کو یقین دلایا کہ وہ سی سی آئی کے اجلاس میں اس بات پر زور دینگے کہ وہ مردم شماری کی تاریخ کا فیصلہ کیا جائے۔

محکمہ بہبود آباد ی کے حوالے سے بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے مختص کردہ فنڈز کم کر دیئے ہیںاور وفاقی حکومت نے ڈائریکٹوریٹ آف سینٹرل وئیر ہائوس اینڈ سپلائیز کا قبضہ بھی منتقل نہیں کیا ہے اور نیشنل رسرچ انسٹیٹو ٹ فار فرٹیلیٹی کئیر NIFC) ( کی منتقلی بھی نہیں ہوئی ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ ایکنیک (ECNEC)نے 13336.043ملین روپے کی لاگت کے پاپولیشن ویلئفیر پروگرام سندھ 2010-15کی پی سی ون کی منظوری دی تھی سی سی آئی نے فیصلہ کیا تھا کہ وفاقی حکومت رواں این ایف سی ایوارڈ 2016تک فنڈنگ جاری رکھے گی مگر فنڈز فراہم نہیں کئے گئے وفاقی حکومت نے 13336.043ملین روپے کی پی سی ون کے مقابلے میں 10412.067ملین روپے جاری کئے اس طرح سے 2923.471ملین روپے کا شارٹ فال ہوا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ یہ مسئلہ بھی سی سی آئی کے اجلاس میں اٹھائیںگے۔ محکمہ زراعت کے حوالے سے بتایا گیا کہ محکمہ پلانٹ پروٹیکشن (MINFAL)کی ڈیولیو شن بشمول پیسٹی سا ئیڈ اور فرٹیلائز رز کی اسٹینڈرائزیشن٬ بیجوں کی تصدیق اور انکے ٹیسٹنگ بھی ابھی تک منتقل نہیں کی گئی ہے جبکہ یہ تمام کام محکمہ زراعت انجام دے رہا ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے محکمہ زراعت کو ہدایت کی کہ وہ مطلوبہ قوانین فریم کریں تب تک وہ اس معاملے پر وفاقی حکومت سے بات کرینگے ۔

محکمہ ثقافت کے حوالے سے بتایا گیا کہ چند محکموں کے اثاثے انہیں منتقل نہیں کئے گئے ہیں جن میں سینٹرل آرکیالوجیکل لائبریری٬ پاکستان کلچر اینڈ آرٹس فائونڈیشن٬ ریلیف فنڈز )مستحق اور ضرورتمند آرٹسٹوں کو معاوضہ دینے کے لئے (میوزیم کمپنسیشن فنڈ شامل ہیں۔ اسکے علاوہ ہاکس بے پر موٹیل ٬ ٹوریسٹ انفارمیشن سینٹر ٹھٹھہ ٬ موٹیل اینڈ ٹوریسٹ انفارمیشن سینٹر موئن جو درڑو اور 32کینال سکھر میں واقع زمین بھی سندھ حکومت کو منتقل نہیں کی گئی ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے انہیں ہدایت کی کہ وہ اس معاملے پر وفاقی حکومت کی متعلقہ وزارت سے بات کر یں اور سندھ کا کیس پیش کر یں اگر انہیں کوئی مسئلہ درپیش ہو تو وہ اس حوالے سے انہیں آگاہ کریں تو وہ اس پر بات کرینگے۔محکمہ زکواة کے حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت کو اٹھارویں ترمیم کے تحت زکواة جمع کرنا ہے مگر ابھی تک محکمہ زکواة سندھ کو زکواة جمع کرنے کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کی جانب سے کوئی واضح ہدایت جاری نہیں کی گئی ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وہ اس معاملے کو بھی سی سی آئی کے اجلاس میں اٹھائیں گے۔ محکمہ ورکرز ویلفئیر کے حوالے سے بتایا گیا کہ صوبائی حکومت نے سندھ ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹ ایکٹ 2014نافذ کیا ہے باوجود اسکے ای او بی آئی سندھ حکومت کو منتقل نہیں ہوئی ہے ٬ محکمہ محنت کے حوالے سے بتایا گیا کہ سکھر میں تعمیر کئے گئے 1024فلیٹس ٬ 200بستروں پر مشتمل سرجیکل اسپتال سکھر ٬ شہید بے نظیر آبا دمیں 512فلیٹس ٬ہائی اسکول چونڈکوخیرپور,50بستروں پر مشتمل اسپتال اور سجاول میں 128فلیٹس اور انفراسٹکچر بھی سندھ ورکرز ویلفئیر بورڈ کے حوالے نہیں کیا گیا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وہ فلیٹس ٬ اسپتالوں کی منتقلی کے ایشوز پر وفاقی حکومت سے بات کرینگے جہاں تک ای او بی آئی کا تعلق ہے پنجاب حکومت نے ایف بی آر کو ای او بی آئی کی کلیکشن روکنے کے لئے سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا ہوا ہے ۔ انہوں نے صوبائی مشیر قانون کو ہدایت کی کہ وہ بھی اس مقدمے میں پارٹی بنیں۔محکمہ صحت کے حوالے سے بتایا گیا کہ چند اداروں مثلاً پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل٬ پاکستان نرسنگ کونسل ٬ کالیج آف فزیشن اینڈ سرجنس آف پاکستان٬ نیشنل کائونسل آف پی آئی بی ٬ نیشنل کائونسل آف ہومیو پیتھی ٬ فارمیسی کونسل آف پاکستان ٬ ڈائیریکٹر آف سینٹرل ہیلتھ اسٹیبلیشمنٹ اور ٹوبییکو کنٹرول سیل کا انتظامی کنٹرول بھی صوبہ سندھ کو نہیں دیا گیا ہے ۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وہ اس مسئلے کو اٹھائیں گے مگر انہیں اس حوالے سے واضح قانونی مشورہ دیا جائے ۔ محکمہ لائیو اسٹاک اینڈ فشریز کے حوالے سے بتایا گیا کہ چند ادارے اب تک سندھ حکومت کو منتقل نہیں کئے گئے ہیں جن میں کوالٹی کنٹرول لیبارٹری کراچی ٬ مئیر ین فشریز ریسرچ لیبارٹری ٬ کراچی فشریز ریسرچ سینٹر ٬ اوشینو گرافی اینڈ ہائیڈرولاجیکل ریسرچ ٬ سینٹرل فشریز ڈپارٹمنٹ اور کورنگی فشریز ہاربر اتھارٹی شامل ہیں۔

محکمہ انرجی کے حوالے سے بتایا گیا کہ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ خام تیل ہونے کے باعث اس پر رائیلٹی جمع کرنا بند کر ے اور انہوں نے قوانین میں ترامیم کی تجویز بھی دیں جس کے لئے انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ سے درخواست کی کہ وہ اس مسئلے کو سی سی آئی کے اجلاس میں اٹھائیں۔ اجلاس میں چند دیگر لیگل ایشوز کے حوالے سے فیصلہ کیا گیا کہ انہیں بھی سی سی آئی کی اجلاس میں اٹھایا جائیگا۔

متعلقہ عنوان :