سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ووٹر لسٹیں درست کی جائیں ٬حافظ نعیم الرحمن

�یصد اندراج درست نہیں ٬گھر گھر جاکر تصدیقی عمل نہ ہو نے کے برابر ہے ٬چیف الیکشن کمیشن کے نام خط

اتوار 30 اکتوبر 2016 19:30

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 اکتوبر2016ء) امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ کراچی کی ووٹر لسٹوں کو جان بوجھ کر خراب کیا گیا ہے ۔خالی پلاٹوں اور چھوٹے گھروں پر بھی بڑی تعداد میں ووٹر ز درج ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق لسٹوں میں 20سی25فیصد اندراج میں سقم موجود ہے اور یہ لسٹیں کسی طرح بھی درست اور معیاری قرار نہیں دی جاسکتی ۔

کراچی میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ووٹر لسٹیں درست کی جائیں اور مکمل تصحیح اور تصدیقی عمل کو یقینی بنانے کے لیے جامع اقدامات کیے جائیں ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے چیف الیکشن کمیشن آف پاکستان سردار رضاخان کو لکھے گئے ایک خط میں کیا ہے ۔حافظ نعیم الرحمن کی طرف سے بھیجے گئے خط میں مزید کہا گیا ہے کہملک میں شفاف٬ دباؤ سے پاک اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد نہ صرف الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری ہے بلکہ ملک میں جائز اور نمائندہ حکومت کی تشکیل ہر طرح سے درست انتخابات کی صورت میں ہی ممکن ہے۔

(جاری ہے)

الیکشن کمیشن کے اعلامیہ کے برخلاف کیفیت یہ ہے کہ گھر گھر جا کر تصدیق کا عمل برائے نام ہے شاید 5 فیصد بھی نہیں متعلقہ عملہ کی لسٹیں درست کرنے کی کوئی خواہش بھی نظر نہیں آتی اگر اس ہی انداز میں یہ عمل مکمل کر لیا گیا توصورتحال جوں کی توں رہے گی اور ان لسٹوں پر ہونے والے انتخابات کسی صورت بھی شفاف نہیں کہلائے جا سکیں گے اور نہ ان کی بنیاد پر منتخب ہونے والے نمائندے حقیقی اور جائزقرار پائیں گے۔

اس کی ایک مثال آزاد کشمیر کے حال ہی میں ہونے والے انتخابات میں سامنے آچکی ہے جو آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ ایم کیو ایم جو کراچی کی دونوں سیٹیں طویل عرصہ سے ہزاروں ووٹوں سے جیتتی چلی آ رہی تھی غلط ووٹوں کے اخراج اور لسٹوںکی تصحیح کے بعد صرف چند سو ووٹ ہی لے سکی اور کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکی۔جس سے یہ بات ثا بت ہوئی ہے کہ گذشہ انتخابات میں اسمبلی کی سیٹوں پر براجمان حضرات عوام کے حقیقی٬ جائز اور قانونی نمائندے نہ تھے۔

حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ جماعت اسلامی الحمداللہ طویل عرصہ سے اس بات کی کوششیں کر رہی ہے کہ نتائج خواہ کسی کے حق میں بھی آئیں لیکن انتخابی عمل شفاف اور دباؤ سے پاک ہونا چاہیے۔ کراچی کی انتخابی فہرستوں کو جان بوجھ کر اس قدر خراب کیا گیا ہے کہ اس کی کوئی کل بھی درست نہیں ٬ْ یہاں تک کہ ایک گلی اور محلہ کے ووٹ بھی ترتیب سے درج نہیں کیے گئے ٬ بہت بڑی تعداد میں پتے ادھورے یا غلط درج کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے ووٹرکی درست شناخت ممکن نہیں رہی۔

شاہراہوں خالی پلاٹوں یا چھوٹے سے گھر پر بڑی تعداد میں ووٹ درج کر دیئے گئے ہیں ٬ ایک حلقہ کے ووٹ دوسرے انتخابی حلقوں میں بڑی تعداد میں درج ہیں۔ جماعت نے 2013کے عام انتخابات سے قبل سپریم کورٹ میں بھی پٹیشن فائل کی تھی جس پر چیف جسٹس صاحب نے فوج کی نگرانی میں لسٹوں کی تصدیق کا حکم دیا تھا لیکن انتخابات چونکہ بہت قریب تھے اور متعلقہ عملہ یہ چاہتا بھی نہ تھالہٰذا یہ عمل نہ ہونے کے برابر رہا۔

اب جبکہ اگلے انتخابات میں ڈیڑھ دو سال باقی ہیں٬ ووٹر لسٹوں کی درستگی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی نے گذشتہ چند ماہ میں پورے کراچی میں تقریباً تیس فیصد ووٹر لسٹوں پر بطور نمونہ کام شروع کیا ہوا ہے۔ جس سے یہ سنگین حقیق منکشف ہوئی ہے کہ لسٹوں میں 20 سے 25 فیصد تک اندراجات میں مختلف طرح کے سقم موجود ہیںاور ووٹر لسٹ کسی بھی طرح معیاری نہیں قرار دی جا سکتی۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات افسوس کے ساتھ کہنی پڑتی ہے اور اس کی تصدیق تمام سیاسی جماعتیں کرتی ہیں کہ کراچی میں تقریباً عرصہ 30 سال سے یہ کیفیت بن گئی ہے کہ دباؤ سے پاک شفاف انتخابات ممکن ہی نہیں رہے ۔ایک سیاسی جماعت نے کراچی کے ہر شعبہ میں اس طرح تسلط قائم کیا کہ انتخابی فہرستوں کی تیار ی سے لے کر ووٹوں کی گنتی تک انتخابات سے متعلق کوئی عمل بھی اس جماعت کی دسترس دباؤ اور بد عنوانی سے بچا نہیںرہا۔

فہرستوں کی تیاری انتخابی عمل کا بنیادی جز ہے اگر یہی درست نہ بن پائیں تو یقیناباقی تمام انتخابی عمل کی حیثیت مشکوک اور کمزور قرار پائے گی۔ انتخابی فہرستوں کی تیاری اور گھر گھر جا کر اندراجات اور تصدیق وغیرہ کا کام بالعموم بلدیاتی عملہ٬ اسکولوں کے ملازمین وغیرہ کرتے ہیں بد قسمتی سے ان تمام اداروں میں اتنے بڑے پیمانے پر غیر قانونی سیاسی بھرتیاں کی گئی ہیں کہ یہ تمام عملہ بالعموم سیاسی ورکر کے طور پر کام کرتا ہے اور تمام تر ہدایات اپنی تنظیم کے ذمہ داران سے حاصل کرتا ہے۔ جو عملہ سیاسی نہیں وہ بھی اپنی جان٬ مال اور نوکری کے پیشِ نظر ان کا ساتھ دینے پر مجبور ہوتا ہے۔اس طرح انتخابات کا تمام عمل ابتدائی مرحلہ سے آخر تک ہائی جیک رہتا ہے۔