پرویز رشید کو خبر رکوانا چاہیے تھی ٬ْ کمیٹی میں اپنا موقف پیش کرینگے ٬ْ وزیرداخلہ چوہدری نثار

آرمی چیف سے میری ٬ْ وزیر اعلیٰ پنجاب اور اسحاق ڈار کی ملاقات اچھی رہی ٬ْ کچھ لوگ ہر چیز کو ڈرامائی شکل دیکر جھوٹ کا لبادہ اوڑھا دیتے ہیں ٬ْ متنازعہ خبر کے معاملے کے پیچھے جوبھی ہے اسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے ٬ْعمران خان جو بیج بو رہے ہیں وہ پاکستان کی جڑیں ہلاکر رکھ دے گا ٬ْایٹمی ملک کے وفاقی دارالحکومت کو لاک ڈائون کر نے سے دنیامیں پاکستان کی بدنامی ہوگی ٬ْ شہر کو لاک ڈاؤن کرنے کااعلان ریاست کے خلاف جرم ہے ٬ْدھرنے والوں کا اس بار پاکستان سیکرٹریٹ میں گھسنے کا منصوبہ ہے ٬ْ بلوائی اوپرچڑھیں گے تو پولیس پھر جواب دیگی ٬ْپریس کانفرنس سے خطاب

اتوار 30 اکتوبر 2016 18:40

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 اکتوبر2016ء) وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ پرویز رشید کو انگریزی اخبار ڈان میں قومی سلامتی کے منافی خبر کی اشاعت رکوانے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا نہ کرنے پر عہدے سے ہٹایا گیا ہے ٬ْ میڈیا کے بجائے کمیٹی میں اپنا موقف پیش کرینگے ٬ْ آرمی چیف سے میری ٬ْ وزیر اعلیٰ پنجاب اور اسحاق ڈار کی ملاقات اچھی رہی ٬ْ کچھ لوگ ہر چیز کو ڈرامائی شکل دیکر جھوٹ کا لبادہ اوڑھا دیتے ہیں ٬ْ متنازعہ خبر کے معاملے کے پیچھے جوبھی ہے اسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے ٬ْعمران خان جو بیج بو رہے ہیں وہ پاکستان کی جڑیں ہلاکر رکھ دے گا ٬ْایٹمی ملک کے وفاقی دارالحکومت کو لاک ڈائون کر نے سے دنیا میںپاکستان کی بدنامی ہوگی ٬ْ شہر کو لاک ڈاؤن کرنے کااعلان ریاست کے خلاف جرم ہے ٬ْدھرنے والوں کا اس بار پاکستان سیکرٹریٹ میں گھسنے کا منصوبہ ہے ٬ْ بلوائی اوپرچڑھیں گے تو پولیس پھر جواب دیگی۔

(جاری ہے)

اتوار کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے بتایاکہ میری پریس کانفرنس دو حصوں پر مشتمل ہوگی اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں کچھ کیسز کے پیر کو فیصلے ہونے ہیں اس حوالے سے شام پھر پریس کانفرنس کرونگا ۔وزیرداخلہ نے کہاکہ متنازع خبر سے پہلے کچھ حقائق واضح کرنا چاہتا ہوں کیونکہ عوام کونہیں معلوم سچ کیا اور جھوٹ کیا ہے٬ ملک میں حقائق پر بات نہیں ہورہی٬ سچ بھی میڈیا پر چل رہا ہے اور جھوٹ بھی چل رہا ہے ۔

چوہدری نثار علی خان نے روز انہ ڈان کی خبر کے حوالے سے کہا کہ متنازعہ خبر کی ابتدائی تحقیقات کافیصلہ وزیراعظم نے کیا اور انہیں وزیر قانون کی سربراہی میں قانونی ٹیم٬ وزارت داخلہ٬ اور دیگر کی حمایت حاصل تھی جس دن سانحہ کوئٹہ ہوا اس سے ایک دن پہلے تمام تجاویز تیار کر لی تھیں تاہم کوئٹہ جانا پڑا گیا جہاں آرمی چیف اور وزیراعظم کی ملاقات ہوئی جس میں تین معاملات پر بات چیت ہوئی جن میں سے ایک معاملہ ڈان میں چھپنے والی خبر کی انکوائری کا تھا۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ بھی اس میٹنگ میں موجود تھے اور آرمی چیف نے تحقیقات کی پیشرفت سے متعلق وزیر اعظم سے بات کی تو وزیراعظم نے میری جانب دیکھا جس پر میں نے بتایا کہ میں کل سے ہی تیار تھا تاہم سانحہ کوئٹہ کے باعث یہاں آنا پڑ گیا ہے اور اب جیسے ہی واپس جائیں گے تو معاملات کو آگے بڑھائیں گے۔انہوں نے کہا کہ میری جانب سے ایسا کہے جانے پر ’اس‘ طرف سے کہا گیا کہ یہاں ہی شیئر کر لیں جس پر میں نے کہا کہ پہلے وزیراعظم کیساتھ شیئر کروں گا اورپھر آپ سے کرینگے جس کے بعد اگلے دن وزیراعظم کیساتھ ملاقات کی جس میں اسحاق ڈار اور شہباز شریف بھی موجود تھے اور تمام معلومات شیئر کیں اور اپنی تجاویز دی۔

وزیراعظم نے مجھ سے کچھ سوالات کئے اور پھر اصولی طور پر میری تجاویز کی منظوری دی۔ چوہدری نثار کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ آرمی چیف نے کہا تھا کہ ان معلومات کا اعلان کرنے سے پہلے انہیں ہمارے ساتھ بھی شیئر کر لیا جائے اس لئے آپ ان کے ساتھ معلومات شیئر کر لیں۔وزیر اعظم سے ملاقات میں شہباز شریف اور اسحاق ڈار بھی تھے٬ وہ میری تجویز پر آرمی چیف سے ملنے میرے ساتھ سرکاری پروٹوکول میں گئے۔

وزیر داخلہ نے کہاکہ یہ نہ تو بریفنگ تھی اور نہ ہی رات 11 بجے کوئی میٹنگ ٬ کچھ لوگوں کا وطیرہ بن گیا ہے کہ وہ ہر چیز کو ڈرامائی شکل دے کر اسے جھوٹ کا لبادہ اوڑھا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ بھی واضح کر دوں کہ آرمی چیف کے ساتھ میٹنگ ہمیشہ کی طرح بہت اچھی تھی۔ کہا گیا کہ یہ بہت تلخ اور گرما گرم تھی لیکن پتہ نہیں کون انہیں سمجھائے گا کہ ایسی خبروں سے ملک کی کوئی خدمت نہیں ہو رہی۔

وزیر داخلہ نے بتایا کہ آرمی چیف سے ملاقات کے بعد وزیر اعظم کو بریف کیا٬ ان سے ملاقات بہت اچھی تھی٬ اگر کوئی کہتا ہے کہ یہ ملاقات تلخ تھی تو میں ان عسکری ذرائع کونہیں مانتا٬ میری بات کی تردید آئی ایس پی آر یا آرمی ہائوس کے ترجمان کر سکتے ہیں آرمی چیف سے ملاقات میںپریس ریلیز کی ورڈنگ طے کر نے میں زیادہ وقت لگا ۔وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ پرویز رشید کے حوالے سے کچھ دستاویزی اور ذرائع سے ملنے والی معلومات موجود ہیں جس کے مطابق صحافی نے پرویز رشید سے ملنے کی خواہش ظاہر کی جس پر ویز رشید نے صحافی کو اپنے دفتر بلایا جس پر صحافی نے بتایا کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے حوالے سے کوئی خبر ہے تاہم سینیٹر پرویز رشید نے خبر کی تردید کی ۔

وزیر داخلہ نے کہاکہ پرویز رشید کو صحافی کو کہنا چاہیے تھا کہ یہ خبر ملکی مفاد میں نہیں اس لیے نہ دیں ٬ْ یا اخبار کے ایڈیٹر سے رابطہ کرتے یا حکومت کے علم میں لاتے کہ ایسی خبر کوئی خبر موجود ہے وزیر داخلہ نے بتایا کہ پرویز رشید کو انگریزی اخبار ڈان میں قومی سلامتی کے منافی خبر کی اشاعت رکوانے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا نہ کرنے پر عہدے سے ہٹایا گیا ہے وزیر اعظم کا فیصلہ انہوںنے خوشدلی سے تسلیم کیا ان کا اپنا ایک موقف ہے لیکن میں نے پرویز رشید سے گزارش کی ہے کہ اس معاملے کو میڈیا پر ایشو نہ بنائیں اور کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنا موقف بیان کریں جسے وہ مان گئے ۔

وزیر داخلہ نے متنازعہ خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ غیر ریاستی عناصر کے حوالے سے وزیر اعلیٰ اور آئی ایس آئی کے سربراہ کے درمیان کوئی تلخی کبھی نہیں ہوئی ہے جس تاریخ کو سیکرٹری خارجہ کی بریفنگ کا رپورٹ میں بتایا گیا اس دن کوئی بریفنگ نہیں ہوئی۔انہوںنے کہاکہ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ متنازعہ خبر معاملے کے پیچھے جوبھی ہے اسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ سیکرٹری خارجہ کا نام لیے جانے پر بھی مجھے افسوس ہے۔ وزیر داخلہ نے کہاکہ ڈان کی خبر افشا ہونے کے معاملے پر اعلیٰ سطح کی ایک کمیٹی بنے گی اور ان کی خواہش ہے کہ اس کی کارروائی سب کے سامنے آئے اور سب کو پتہ چلے کہ اس کے پیچھے کون ہی ۔پی ٹی آئی کے اسلام آباد کو دو نومبر کو بند کرنے کے اعلان کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ اسکولوں کا کھلا رہنا٬ہسپتالوں کے راستے کھلے رہنا٬ شہریوں کی زندگی متاثر نہ ہونا٬ سرکاری دفاتر٬ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کھلے رہنا میری ذمہ داری اور شہریوں کا حق ہے اور انشاء اللہ یہ کھلے رہیں گے ۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ پچھلے دھرنے میں طاہرالقادری اورعمران خان بھی گھن گرج سے آئے اور معاملہ طے ہوا٬ دھرنے کے باعث کے 4 مہینے اسلام آباد بند رہا اور گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں کسی کوبھی سیاسی طورپرنہیں روکا لہذا سڑکیں٬ حکومتی ادارے اور عدالتوں کو کھلا رکھنا میری ذمہ داری ہے ٬ْ عمران خان سے کہا کہ جہاں میری ذمہ داری آگئی وہ پوری کروں گا ۔

2014 میں اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے دھرنے کا حوالہ دے کر انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی جب دھرنے کے آخری دن تھے تو بھی ان کو زبردستی نہیں اٹھایا مجھ پر بہت پریشر ڈالا گیا مجھے کہا گیا کہ چالیس پچاس بند ے رہ گئے ہیں دس پولیس اہلکار بھیج کر منتشر کر دیں مگر میں نے ایسا نہیں کر نے دیا ۔چوہدری نثار نے کہا کہ اب اعلان کیا گیا ہے کہ اسلام آباد کو بند کریں گے٬ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے٬ ایٹمی ملک ہونے کی وجہ سے اس کی دشمن پر ایک رعب ہے٬ دارالحکومت بند ہونے سے یہ بات ہو گی کہ یہ کیسا ملک ہے کہ ایک جتھاآتا ہے اور زور زبردستی سے دارالحکومت کو بند کروا دیا جاتا ہے٬ اس سے حکومت کی نہیں ملک کی بند نامی ہوگی ٬ْشہر کو لاک ڈاؤن کرنے کااعلان ریاست کے خلاف جرم ہے۔

چوہدری نثار نے بتایا کہ پولیس پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نہیں ہے٬ یہ ریاست کی فورس ہے٬ اس نے ہی حکومت کی عمل داری قائم کی ہے آئندہ بھی اسی طرح ہوگا۔وزیر داخلہ نے عمران خان کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ یہ جو بیج بوئے جا رہے ہیں اس سے وفاقی کی بنیادیں ہل جائیں گی ٬ْایک صوبے کو وفاق کے خلاف کھڑا کیا جا رہا ہے٬ 10٬15ہزار کاجتھا دارالحکومت پرقبضہ کرکے اپنی بات نہیں منواسکتا٬ کیا کوئی صوبائی حکومت وفاق کے خلاف اعلان جنگ کرسکتی ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کے معاملے پر یکم نومبر کو طلب کر لیا ہے ٬ْاس کے باوجود 2 نومبر کو اسلام آباد کو بند کرنے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔وزیر داخلہ نے انکشاف کیا کہ دھرنے والوں کا اس بار پاکستان سیکریٹریٹ میں گھسنے کا منصوبہ ہے لہذا میں نے ذمہ داری قبول کرکے ریڈلائن ڈرا کی اور پولیس کو کہا کہ اگر بلوائی اوپرچڑھیں تو پھر جواب دیں۔

ایک سوال پر وزیر داخلہ نے کہاکہ سکیورٹی معاملات میں حکومت اور فوج میں کوئی اختلاف نہیں اور غیر ریاستی عناصر کے بارے میں دونوں میں کبھی اختلاف نہیں ہوا بلکہ اتفاقِ رائے ہی رہا ہے۔پریس کانفرنس کے دور ان چوہدری نثار نے بتایا کہ ہنگامہ آرائی سے پی ٹی آئی خاتون کو پولیس خاتون اہلکار نے روکا تو انہوں نے کہا کہ وہ فوجی کی بیٹی ہے اور ان کا یہ کہنا فوج کو بدنام کرنے کے مترادف ہے وزیر داخلہ نے بتایا کہ میں خود فوجی کا پوتا٬ فوجی کا بیٹا اور تین فوجیوں کا بہنوئی ہوں ٬ْ فوجی کی بیٹی ہونے کا یہ مطلب نہیں ٬ اپنے آپ میں ڈسپلن پیداکریں٬ حکومت کی کوشش ہے کہ معاملہ افہام وتفہیم کیساتھ حل ہو۔