چائنا پاکستان راہداری منصوبہ (سی پیک) سے مستقل اور پائیدار بنیادوں پر بھر پور فائدہ اٹھانے کیلئے پاکستان کی جدید سائنسی خطوط پر صنعتی ترقی ناگزیر ہے٬صدرفیصل آباد چیمبر

ہفتہ 29 اکتوبر 2016 11:24

فیصل آباد۔28 اکتوبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 29 اکتوبر2016ء) چائنا پاکستان راہداری منصوبہ (سی پیک) سے مستقل اور پائیدار بنیادوں پر بھر پور فائدہ اٹھانے کیلئے پاکستان کی جامع ٬منظم مربوط اور جدید سائنسی خطوط پر صنعتی ترقی ناگزیر ہے جس کیلئے حکومت کو کاسٹ آف ڈوئنگ بزنس کم کرنے کیلئے فوری اور عملی اقدامات کرنے ہونگے ۔ یہ بات فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر انجینئر محمد سعید شیخ نے صوبائی وزارت صنعت کے شعبہ انڈسٹریز ٬کامرس ٬ اور انویسٹمنٹ کے زیر اہتمام صنعتی پالیسی اور مردم شماری کے بارے میں ایک مشاورتی ورکشاپ سے بطور مہمان سپیکر خطاب کرتے ہوئے کہی ۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مواصلاتی رابطے صنعتی سماجی اور کاروباری ترقی کیلئے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور اس حوالے سے اس پورے خطے کی قسمت براہ راست چین پاکستان اقتصادی راہداری سے منسلک ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سی پیک ایک ایسا نادر موقع ہے جو سالوں بعد ملتا ہے ۔ہمیں اس سے بھر پور فائدہ اٹھانے کیلئے شعوری کوششیں کرنے کی ضرورت ہے ۔

جبکہ حکومت کو بھی چاہیئے کہ وہ صنعتی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے اپنے تمام متعلقہ محکموں میں’’ پروصنعتی کلچر‘‘ کی بنیاد ڈالے ۔انہوں نے موجودہ صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں تمام علاقائی ملکوں کی نسبت بجلی اور گیس کا ٹیرف سب سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے ہمارے لئے اپنے کاروباری حریف ملکوں کا مقابلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو بھی اس کا بخوبی ادراک ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ بجلی کی پیداوار بڑھانے کے منصوبوں پر سنجیدگی سے کام کر رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی برآمدات میں گزشتہ تین ماہ سے مسلسل کمی کی اہم اور بڑی وجہ گیس اور بجلی کی غیر معمولی قیمتیں ہیں ۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو فوری طور پر ایسی حکمت عملی اختیار کرنی ہو گی جس کے ذریعے خاص طور پر صنعتوں کو انتہائی کم ریٹ پر مسلسل بجلی مل سکے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح گیس کے ریٹ کم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی سال بھر فراہمی کو یقینی بنانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔انجینئر محمد سعید شیخ نے کہا کہ پاکستان میں ہر سال غیر ہنر مند افراد کی تنخواہیں بڑھانے کا لامتناہی سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ صنعتکار غریب دوست ہیں اور وہ خود بھی چاہتے ہیں کہ مزدوروں کو زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں ملنی چاہیئں لیکن اس کا حل صرف تنخواہوں میں اضافہ ہرگز نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ فیصل آباد کے تقریباً تمام صنعتکار انتہائی ذمہ داری سے اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن اور سوشل سیکورٹی کی کنٹری بیوشن دے رہے ہیں تاکہ ان کی لیبر انہیں دعائیں دے مگر اکثر و بیشتر غیر ہنر مند افراد کی تنخواہیں بڑھانے کے بعد انہیں دیگر ہنر مند٬ پہلے سے ہی اور زیادہ مراعات لینے والوں کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کے سیلری کا Impact جو غیر ہنر مند افراد کی سطح پر 2 تین لاکھ ہوتا ہے بڑھ کر 20 لاکھ سے بھی تجاوز کر جاتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو تنخواہیں کے ریٹس کو منجمد کرنے کے ساتھ مزدوروں کو سستے نرخوں پر اشیائے ضروریہ کی فراہمی کیلئے سبسڈی دینی چاہیئے ۔انہوں نے کہا کہ اس مطالبہ کو اس تناظر میں ہرگز نہ لیا جائے کہ ہم مزدوروں کی بہتری نہیں چاہتے ہم حکومت سے زیادہ ان کا خیال رکھتے ہیں۔ لیکن اگر صنعتوں پر ان کی برداشت سے زیادہ بوجھ ڈالا جائے تو اس کا جو نتیجہ ہوگا اسے نہ صرف ملک و قوم ٬صنعتکاروں اور سب سے بڑھ کر مزدوروں کو بھی بھگتنا پڑے گا ۔

فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے صدر نے صوبے بھر کے صنعتی علاقوں کی حالت زار پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ صنعتوں سے کنٹری بیوشن لینے اور ان پر مختلف قسم کی پابندیاں لگانے والے محکموں کی تعداد میں تو مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔مگر انہیں سہولتیں دینے کو کوئی تیار نہیں ۔انہوں نے وضاحت کی کہ صنعتیںہمیشہ آبادی سے باہر لگتی ہیں ۔

جبکہ لوگ بعد میں یہاں آباد ہو جاتے ہیں اور پھر انکو ان باضابطہ صنعتی علاقوں سے بے دخل کر دیا جاتا ہے اسی سے جہاں صنعتکاروں کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے وہاں ان کا اعتماد بھی بری طرح مجروح ہوتا ہے ۔انہوں نے اپنے اس مطالبے کو دوہرایا کہ کھرڑیانوالہ جڑانوالہ روڈ ٬کھرڑیانوالہ ساہینوالہ ٬کھرڑیانوالہ چک جھمرہ روڈ اور ملت انڈسٹریل اسٹیٹ کے علاقوں کو فوری طور پر باضابطہ صنعتی علاقے قرار دے کر یہاں ہر قسم کی دیگر سرگرمیوں پر پابندی عائد کی جائے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح ان صنعتی علاقوں کی شکستہ سڑکوں کی فوری مرمت کے علاوہ وہاں نکاسی آب کا بھی موثر انتظام کیا جائے تاکہ ڈینگی کی آڑ میں صنعتوں کو بلاوجہ بند کرنے کے سلسلے کو روکا جا سکے ۔انہوں نے واضح کیا کہ جب تک حکومت صنعتوں کی ترقی کیلئے آسانیاں پیدا نہیں کرے گی نہ تو روزگار کے مسائل حل ہونگے اور نہ ہی ہم سی پیک سے پیدا ہونے والے مواقعوں سے پوری طرح فائدہ اٹھا سکیں گے ۔

انجینئر محمد سعید شیخ نے کہا کہ مشکل حالات کے باجود فیصل آباد کے صنعتکار پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے کوشاں ہیں اور حکومت کو چاہیئے کہ وہ معاشی جہاد میں مصروف ان مجاہدوں کی ہر سطح پر حوصلہ افزائی کرے تاکہ پاکستان سے غربت جہالت اور پسماندگی کا جلد خاتمہ کیا جا سکے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیڈمک کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے تقریباً تمام پلاٹ فروخت ہو چکے ہیں۔

دوسرا مرحلے کے رہ جانے والی زمین کو ایک اور دو ایکڑ کے پلاٹوں کی شکل میں ہوزری پاورلومز اور سائزنگ انڈسٹری کیلئے مختص کیا جائے کیونکہ ٹیکسٹائل پروسیسنگ ان کے بغیر چل ہی نہیں سکتی ۔اس مشاورتی ورکشاب کی صدارت صوبائی سیکرٹری انڈسٹریز شیر دل نے کی جبکہ اس میں صوبائی وزیر چوہدری محمد شفیق احمد نے بھی شرکت کی ۔

متعلقہ عنوان :