بھارت نے جاسوسی کا الزام عائد کرکے پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک افسر کو ’ناپسندیدہ شخص‘ قرار دے دیا اور 48 گھنٹوں کے اندر اندر انہیں ملک چھوڑ دینے کا حکم دے دیا۔ پولیس نے محمود اختر کو بدھ کی شب حراست میں لیا گیا اور ان کے پاس دفاع سے متعلق دستاویز موجود تھے۔بھارتی ذرائع ابلاغ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 27 اکتوبر 2016 13:00

بھارت نے جاسوسی کا الزام عائد کرکے پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک افسر ..

نئی دہلی(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔27اکتوبر۔2016ء) بھارت نے جاسوسی کا الزام عائد کرکے پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک افسر کو ’ناپسندیدہ شخص‘ قرار دے دیا اور 48 گھنٹوں کے اندر اندر انہیں ملک چھوڑ دینے کا حکم دے دیا۔بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے افسر کو دہلی پولیس نے جاسوسی کے الزام میں حراست میں لیا تاہم کچھ دیر بعد انہیں رہا کردیا گیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ نے تصدیق کی کہ پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک افسر کو جاسوسی کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔وکاس سوارپ نے ٹوئیٹر پر جاری اپنے پیغام میں کہا کہ سیکریٹری خارجہ نے پاکستانی ہائی کمشنر کو طلب کیا اور انہیں اس بات سے آگاہ کیا کہ ان کے ایک افسر کو ناپسندیدہ شخص قرار دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق پولیس نے محمود اختر کو بدھ کی شب حراست میں لیا گیا اور ان کے پاس دفاع سے متعلق دستاویز موجود تھے۔ پولیس حکام کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ بعد ازاں محمود اختر کو تفتیش کے بعد رہا کردیا گیا کیوں کہ انہیں ’سفارتی استثنیٰ‘ حاصل ہے۔اس کے علاوہ مزید دو افراد مولانا رمضان اور سبھاش جہانگیر کو بھی حراست میں لیا گیا جن پر الزام لگایا گیا کہ وہ پاکستانی ہائی کمیشن کے افسر کو حساس معلومات فراہم کررہے تھے۔

پاکستانی ہائی کمیشن کے ذرائع کے مطابق پاکستانی سفارتکار کو حراست میں لیے جانے پر انڈین حکام سے احتجاج کیا گیا ہے۔جمعرات کی صبح دلی پولیس کی کرائم برانچ کے ایک سینیئر افسر روندر یادو نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ پاکستانی اہلکار محمود اختر کو بدھ کے روز پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا اور چند گھنٹے بعد ہی انھیں رہا کر دیا گیا تھا۔

پولیس افسر کا کہنا تھا کہ پاکستانی سفارتی اہلکار کو اس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب انھیں راجستھان کے دو مقامی اشخاص دلی کے چڑیا گھر کے علاقے میں سرحدی علاقوں میں فوج کی تعیناتی اور سرگرمی سے متعلق بعض دستاویزات دے رہے تھے۔پولیس افسر کا کہنا تھا کہ محمود اختر پر چھ ماہ پہلے ہی سے نظر رکھی جا رہی تھی۔دلی پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی پوگچھ کے دوران محمود اختر نے بتایا کہ ان کا تعلق پرانی دلی میں لال کنوئیں کے علاقے سے ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے بعض انڈین شناختی دستاویزات بھی پیش کیں لیکن مزید تفتیش سے معلوم ہوا کہ وہ پاکستانی شہری ہیں۔

روندر یادو کے مطابق پھر وزارت خارجہ کے افسران سے رابطہ کرنے پر اس بات کی تصدیق ہوئی کی وہ پاکستانی ہائی کمیشن میں تعینات ہیں اور انھیں سفارتی استثنیٰ حاصل ہے جس کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے حکام نے جمعرات کی صبح پاکستان کے ہائی کمشنر کو بھی طلب کیا جہاں انھوں نے بھارتی خارجہ سیکریٹری سے ملاقات کی۔پاکستان کے ہائی کمیشن کے ذرائع کے مطابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے بھارتی الزامات کو قطعی طور پر مسترد کر دیا اور اپنے سفارت کار کو حراست میں لیے جانے اور ان کے ساتھ بدسلوکی پر سخت احتجاج کیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اپنی ملاقات میں پاکستانی ہائی کمشنر نے بھارت سے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات نہ ہوں۔انھوں نے جاسوسی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستانی سفارتکار کبھی بھی ایسی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوتے جو بین الاقوامی سفارتی اصول و ضوابط سے مطابقت نہیں رکھتے۔ پولیس کے مطابق ان افراد کی گرفتاری سے جاسوسی کے ایک ریکٹ کا پردہ فاش ہوا ہے اور ابھی اس سے متعلق مزید افراد گرفتاریاں ہونی باقی ہیں۔

پریس کانفرنس میں موجود صحافیوں نے جب اس بارے میں کچھ سوالات کیے اور تفصیلات بتانے کو کہا تو پولیس افسر روندر یادو نے کہا کہ بعض حساس نوعیت کی معلومات کو ابھی واضح نہیں کیا جا سکتا اور مناسب وقت آنے پر بتا دیا جائے گا۔

متعلقہ عنوان :