صوبائی حکومت کے پاس حملے کے بارے میں اطلاعات تھیں‘ انٹیلی جنس اطلاعات وزیراعلیٰ کے پاس آئیں تو انھوں نے فوری طور پر اس سے متعلق پولیس افسران اور اعلیٰ حکام کو آگاہ کیا، لیکن دوسری طرف سے بروقت جواب نہیں آیا۔پولیس ٹریننگ کالج حملے کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، اس میں تمام پہلووں سے جائزہ لیا جائے گا اور ہمارا عزم یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی غلطیاں ہوئی ہیں ان کو نظر انداز کرنے کے بجائے ہم تسلیم کریں، کیونکہ یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، لہذا ہمیں آگے اور لڑنا ہے۔ترجمان بلوچستان حکومت

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 27 اکتوبر 2016 11:53

صوبائی حکومت کے پاس حملے کے بارے میں اطلاعات تھیں‘ انٹیلی جنس اطلاعات ..

اسلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔27اکتوبر۔2016ء) کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ کالج پر دہشت گردوں کے حملے میں جہاں ایک طرف 60 سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، وہیں ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی ان اہم سوالات نے جنم لیا کہ آیا سیکیورٹی انتظامات میں ایسی کون سی کمی تھی کہ جس سے حملہ آور آسانی سے اس تربیتی مرکز کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے-یہ کوئی پہلا حملہ نہیں ہے، ماضی میں بھی دہشت گرد نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی اسی طرز کے حملے کرچکے ہیں جن میں حال ہی میں کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خود کش دھماکا، پشاور کے آرمی پبلک اسکول، باچا خان یونیورسٹی اور کراچی کے ہوائی اڈے سمیت مہران بیس ‘لاہور میں ایف آئی اے بلڈنگ ‘خفیہ ایجنسی کے دفتر اور گلشن اقبال پارک پر ہونے والے بڑے دہشت گرد حملے نمایاں ہیں۔

(جاری ہے)

کوئٹہ پولیس ٹریننگ کالج پر حالیہ حملے کے بعد جو بنیادی سوال ابھر کر سامنے آیا وہ یہ تھا کہ جب بلوچستان حکومت کو 4 دن پہلے انٹیلی جنس اطلاعات مل چکی تھیں تو پھر ا±ن ضروری اقدامات کو کیوں نظر انداز کیا گیا جن سے اس قسم کے حملے سے بچا جاسکتا تھا۔نجی ٹی وی کے پروگرام میں صوبائی حکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی کارروائی سے متعلق اعلیٰ فوجی افسران نے وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری کو پہلے ہی اطلاع دے دی تھی، لیکن بدقسمتی سے اس پر عمل نہیں ہوا۔

انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ 'جب یہ انٹیلی جنس اطلاعات وزیراعلیٰ کے پاس آئیں تو انھوں نے فوری طور پر اس سے متعلق پولیس افسران اور اعلیٰ حکام کو آگاہ کیا، لیکن دوسری طرف سے بروقت جواب نہیں آیا۔انھوں نے کہا کہ پولیس ٹریننگ کالج حملے کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، اس میں تمام پہلووں سے جائزہ لیا جائے گا اور ہمارا عزم یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی غلطیاں ہوئی ہیں ان کو نظر انداز کرنے کے بجائے ہم تسلیم کریں، کیونکہ یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، لہذا ہمیں آگے اور لڑنا ہے۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان نے سوشل میڈیا پر چلنے والے کیڈٹ کے خط اور اہلکاروں کو تربیتی مرکز واپس بلانے سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی سچائی جاننے کے لیے انھوں نے اعلیٰ سطح پر آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی پولیس سے خود رابطہ کیا، جنھوں نے بتایا کہ انہیں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ایک کورس کی غرض سے ایک ماہ کے لیے واپس بلایا گیا تھا جس میں فوج کی طرف سے کیڈٹس کو تربیت فراہم کی جاتی ہے اور یہ سلسلہ گذشتہ 2 برسوں سے جاری ہے۔

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اگر ان کیڈٹس کو ایسے کسی کورس کے لیے بلایا گیا تو پھر انہیں خود اس بارے میں اطلاع کیوں نہیں تھی اور نہ ہی وہ اپنے ساتھ ایسا کوئی سامان لائے؟ تو انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ آیا انہیں کسی نے اس کورس کی اطلاع دی تھی یا نہیں، لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ ان اہلکاروں نے محرم الحرام کے دوران سیکیورٹی کی ڈیوٹی دی تھی جو انھیں واپس بلانے کی ایک بنیادی وجہ تھی۔

انوار الحق کا کہنا تھا کہ اس وقت وہ سوشل میڈیا کی اطلاعات پر کوئی سرکاری وضاحت یا اس کی تصدیق نہیں کرسکتے، کیونکہ ہم صر ف ایک سوال نہیں بلکہ اس جیسے کئی سوالوں کو زیرِ تفتیش لا رہے ہیں جن سے حملے کی تحقیقات میں مدد مل سکتی ہے۔تربیتی کالج کے اطراف سیکیورٹی انتظامات اور کوئٹہ پولیس چیف کی جانب سے کچھ عرصہ قبل اس کی چار دیواری بنانے کے حوالے سے کی جانے والی درخواست پر پوچھے گئے سوال پر انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ یہ ایک دائمی مسئلہ تھا جس کو گذشتہ 13 سال میں کئی پولیس افسران نے اٹھایا تھا،لیکن اس چار دیواری کی فوری تعمیر کے لیے مسئلے کو عوامی سطح پر لانے کے بجائے وزیراعلیٰ کے نوٹس میں لانا چاہیے تھا۔

دہشت گردوں کے سرحد پار افغانستان سے آکر حملہ کرنے کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ جب انھوں نے ایک دہشت گرد کی لاش دیکھی تو وہ 90 سے 95 فیصد افغان ازبک باشندہ ظاہر ہورہا تھا اور اب تک کی ابتدائی اطلاعات سے یہ واضح ہے کہ حملے میں افغانستان کی سرزمین استعمال کی گئی۔

متعلقہ عنوان :