سینیٹر سراج الحق و دیگر رہنمائوں کا لاہور میں جیورسٹ کانفرنس سے خطاب

ملک میں آئین کی بالادستی اور عدلیہ کے وقار کی بحالی کیلئے عدلیہ پانامہ لیکس پر مصلحتوں کا شکار نہ ہو اور تمام جج صاحبان نظریہ ضرورت کو دفن کرکے پوری جرأت کے ساتھ فیصلے دیں ٬ سراج الحق

بدھ 26 اکتوبر 2016 21:16

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 اکتوبر2016ء) جماعت اسلامی پاکستان کے زیر اہتمام سینیٹر سراج الحق کی صدارت میںمقامی ہوٹل میں منعقدہ جیورسٹ کانفرنس کے شرکاء نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں آئین کی بالادستی اور عدلیہ کے وقار کی بحالی کیلئے عدلیہ پانامہ لیکس پر مصلحتوں کا شکار نہ ہو اور تمام جج صاحبان نظریہ ضرورت کو دفن کرکے پوری جرأت کے ساتھ فیصلے دیں ٬قوم ان کے ساتھ ہے ۔

قوم کو عدلیہ پر اعتماد ہے ۔کرپشن کا راستہ روکنے اور کرپٹ ٹولے سے نجات کیلئے قوم نے عدلیہ سے امید یں باندھ لی ہیں ۔جیورسٹ کانفرنس سے امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق ٬ماہر قانون دان ایس ایم ظفر ٬لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر رانا ضیاء عبدالرحمن ٬لیاقت بلوچ ٬(ر) جج حافظ عبد الرحمن انصاری ٬اسد اللہ بھٹو ایڈووکیٹ ٬پروفیسر محمد ابراہیم٬ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ودیگر نے خطاب کیا ۔

(جاری ہے)

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ حکمرانوں نے خود کو وفاقی دارالحکومت میں قلعہ بند اور عوام سے بالکل الگ تھلگ کرلیا ہے نہ وہ کسی کی سنتے ہیں نہ مانتے ہیں ٬احتساب کی راہ روکنے کیلئے حکمران آخری حد تک چلے گئے ہیں ٬وزیراعظم کو چاہئے تھا کہ دیگر ممالک کے حکمرانوں کی طرح پانامہ لیکس کے الزامات سامنے آنے کے بعد مستعفی ہو جاتے اور ایک آزاد اور خود مختار کمیشن بنا کرخود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیتے ۔

حکمران پہلے چوری اور پھر سینہ زور ی کرتے ہیں ٬لیکن ان کی’’ میں نہ مانو‘‘ کی رٹ انہیں احتساب سے نہیں بچا سکتی ۔حکمران اپنے گرد جتنی حفاظتی دیواریں بنا لیں٬ اتنے ہی غیر محفوظ ہیں ۔انہوں نے سپریم کورٹ کی طرف سے پلی بارگین کے خاتمہ کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ نیب اربوں لوٹنے والوں سے چند کروڑ لیکر انہیں دوبارہ کرپشن کرنے کا لائسنس دے دیتا تھا ٬نیب نے کرپشن کے اتنے پیسے لٹیروں سے واپس نہیں لئے جتنے اس پر اخراجات اٹھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیب سمیت احتساب کے تمام ادارے حکمرانوں کا احتساب کرنے اور مگر مچھوں کو پکڑنے کی بجائے چھوٹے چھوٹے چوروں کا پیچھا کررہے ہیں جس سے کرپشن کلچر مضبوط ہورہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ نیب کی طرف سے کرپٹ لوگوں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی سے کرپشن انڈے بچے دے رہی ہے ۔حکمرانوں نے غریب قوم کے کھربوں روپے لوٹ کر بیرون ملک منتقل کردیئے ہیں جبکہ قوم کے دوکروڑ بچے سکول جانے ٬ 35فیصد عوام صاف پانی اورلاکھوں پاکستانی چھت جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہیں ۔

لوگ گردے فروخت کرنے پر مجبور ہیں ۔ایسے ماحول میں سیاسی اور سرکاری قیادت کرپشن میں لتھڑی ہوئی ہے اور اپنی اس لوٹ مار پر شرمندہ ہونے کی بجائے اسے جاری رکھنے کے طریقے ڈھونڈ رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ اپنے مہروں کو پاکستان کے اقتدار پر مسلط کرتی ہے ٬کبھی شوکت عزیز اور کبھی معین قریشی آتے ہیں اور عالمی ایجنڈے کو پورا کرنے کے بعد غائب ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے تمام مسائل کا حل اسلامی نظام کے نفاذ اور صاف ستھری قیادت کے انتخاب میں ہے ۔جیورسٹ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایس ایم ظفر نے کہا کہ کرپشن کے خاتمہ کیلئے قوم کو عدلیہ پر اعتماد کرنا ہوگا اور مجھے امید ہے کہ عدلیہ قوم کو مایوس نہیں کرے گی ۔ملک میں معاشرتی ٬سیاسی اور ریاستی کرپشن نے پورے نظام کو مفلوج کردیا ہے ۔

کرپشن کے کینسر کو روکا نہ گیا تو ریاست کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا ٬انہوں نے کہا کہ کسی طرف سے روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی ٬جماعت اسلامی کا وجود اس ملک کیلئے نعمت سے کم نہیں جس کی دیانتدار ی اور جمہوری روایات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ٬جماعت اسلامی میںمسلسل انتخابات ہوتے ہیں اور اس کی قیادت اور کارکنان پر کبھی کسی نے انگلی نہیں اٹھائی ۔

انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس کو میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قوم کے لئے اپنی اصلاح کا ایک موقع دیا گیا ہے ۔اس وقت ہمیں ضرورت ہے کہ 1956کے آئین میں مناسب ترمیم کرکے ایک آزاد اور خود مختار کمیشن کیلئے قانون سازی کریں جو لٹیروں کو نہ صرف پکڑے بلکہ ان سے لوٹی گئی دولت واپس لے اور انہیں سزائیں دے تاکہ کرپشن کے ناسور کو مزید پھیلنے سے روکا جاسکے ۔

انہوں نے کہا کہ اس کمیشن کو اداروں کے اندر صفائی اور دیانتدار لوگوں کو اداروں میں تعینات کرنے کا بھی اختیار ہونا چاہئے ۔اب تک جتنے بھی معاملات بگڑے ہیں وہ سیاستدانوں کی بے بصیرتی کی وجہ سے بگڑے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتی ۔جمہوریت کی گاڑی کو پٹری پر لانے کیلئے ہمیں جوڈیشری سے رجوع کرنا پڑے گا۔

لیاقت بلوچ نے کہا کہ کرپشن سرطان اور دیمک کی طرح معاشرے کو تباہی کی طر ف لے جارہی ہے ۔جماعت اسلامی نے مارچ 2016میں کرپشن کے خلاف جس تحریک کا آغاز کیا تھا آج ملک کے ہر فرد کی زبان پرہے ۔ہم نے کرپشن کے خلاف دستخطی مہم ٬ٹرین مارچ اور پیدل مارچ اور جلسے جلوس کئے اور عوام تک پہنچنے کے تمام ذرائع اختیار کئے قومی دولت لوٹنے اور اربوں روپے کے قرضے معاف کرانے والوں کا آج تک احتساب نہیں ہوا۔

جسٹس ریٹائرڈ حافظ عبد الرحمن انصاری نے کہا کہ اس وقت ملک کو سب سے بڑا چیلنج کرپشن کا ہے جو تمام اداروں میں سرایت کرچکی ہے ۔کرپشن کے خاتمہ کیلئے جو ادارے بنائے گئے تھے وہ خود کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں۔نیب پر ریکوری سے بڑھ کر خرچ آرہا ہے ٬سپریم کورٹ سے امید ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف مقدمہ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائے گی۔لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر رانا ضیاء عبدالرحمن نے کہاکہ کرپشن چند سال کی پیداوار نہیں ٬قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہر شعبے میں کالی بھیڑیں داخل ہوگئی تھیں جنہیں روکنے کیلئے موثر قانون سازی نہیں ہوسکی قانون بنتے رہے مگر کسی قانون نے آج تک لٹیروں کو نہیں پکڑا۔

جیوڈیشری نے بھی عوام کو مایوس کیا ۔انہوں نے کہا کہ ایسا قانون ہونا چاہئے جو ان ڈاکوئوں کو پکڑ سکے ۔جماعت اسلامی کی قانونی کمیٹی کے سربراہ اور نائب امیر اسد اللہ بھٹو نے کہا کہ کرپشن کا مسئلہ پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ ہے ۔کرپشن میں ملوث لوگوں کو ان کے عبرت ناک انجام تک پہنچانا پوری قوم کی خواہش ہے مگر یہ خواہش بار بار لٹیروں کو سر پر بٹھانے سے پوری نہیں ہوسکتی ۔

آئینی ماہرین کو آگے بڑھ کر کرپشن کے ہمیشہ کیلئے آئینی ضرورتوں کو پورا کرنا اور قوم کی رہنمائی کافریضہ سرانجام دینا ہوگا۔ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے کہا کہ ہم ایسا کمیشن چاہتے ہیں جو بااختیار ہو اور محض حمود الرحمن اور ایبٹ آباد کمیشنز کی طرح تحقیقات پر کتابیں لکھ پر اپنے فرض سے سبکدوش نہ ہوجائے بلکہ کرپشن کرنے والوں کو سزائیں دے اور لوٹی دولت نکلوا کر قومی خزانے میں جمع کروائے ۔