بین الاقوامی نفسیاتی تنظیموں نے سپریم کورٹ کے ’’شیزوفرینیا‘‘ سے متعلق ریمارکس پر شدید تحفظات کا اظہارکیا ہے٬ڈاکٹر اقبال آفریدی

پاکستان میں 14 ملین افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں ٬2 ملین صرف کراچی میں ہیں٬ڈاکٹر انیلا امبر ملک

بدھ 26 اکتوبر 2016 19:56

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 اکتوبر2016ء) جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹرکے شعبہ نفسیات کے چیئر مین پر وفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی نے کہا کہ بین الاقوامی نفسیاتی تنظیموں نے پاکستانی سپریم کورٹ کی نفسیاتی بیماری ’’شیزوفرینیا‘‘ سے متعلق ریمارکس پر شدید تحفظات کا اظہارکیا ہے۔ ہم سپریم کورٹ سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے ماہرین کی رائے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے شیزوفرینیا کو نفسیاتی بیماری قراردے بصورت دیگر مذکورہ صورتحال سے پاکستان کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوگی۔

پاکستان میں شیزوفرینیا کی14 لاکھ مریض موجود ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ تمام مریض عدم تحفظ کا شکارہوجائیں گے۔ان خیالا کا اظہار انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ نفسیات کے زیر اہتمام اور نیشنل بینک کے اشتراک سے مینٹل ہیلتھ ویک کی مناسبت سے منعقدہ پروگرام بعنوان: ’’بریسٹ کینسراور ذہنی بیماریوں سے آگاہی‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر چیئر مین شعبہ جغرافیہ پروفیسر ڈاکٹر جمیل کاظمی ٬سابق چیئر مین شعبہ نفسیات پروفیسر ڈاکٹر انیلا امبر ملک ٬چیئر مین شعبہ نفسیات پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال٬پروفیسر ڈاکٹر ایس ایم طحہٰ اور دیگر اساتذہ بھی موجودتھے۔ڈاکٹر اقبال آفریدی نے مزید کہا کہ ہم سب اسٹریس اور ذہنی دبائو کا شکارہوسکتے ہیں اگر ذہنی دبائو کاالفاظ یا آنسوئوں کی صورت میں اخراج نہ ہوسکے تو انسانی جسم کے مختلف اعضاء پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ذہنی مریض بھی ہمارے معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں اور وہ تشددپسند نہیں بلکہ تشدد کے شکار ہوتے ہیں ۔ہمارا معاشرہ بریسٹ کینسر کی شکار خواتین کے علاج میں اس لئے رکاوٹ بنتا ہے کیونکہ اس کا تعلق جنسی اعضاء سے ہے۔بریسٹ کینسرکے کیسز اب مردوں میں بھی سامنے آرہے ہیں ۔ذہنی امراض کو نارمل انداز سے لینا چاہیئے اور ان کے شکار افراد کا مذاق اڑانے سے گریز کرنا چاہیئے۔

سابق چیئر مین شعبہ نفسیات پروفیسر ڈاکٹر انیلا امبر ملک نے کہا کہ ہم سب اپنی اپنی زندگیوں میں کم سے کم ایک بار اسٹریس اور ذہنی دبائو کی شدت کا شکارہوتے ہیں ٬ہمیں ہمارے طلبہ میں بریسٹ کینسر اور ذہنی امراض کی بڑھتی ہوئی شرح کی روک تھام کے لئے بھر آگاہی فراہم کرنا ہوگی۔پاکستان میں 14 ملین افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جبکہ 2 ملین افراد صرف کراچی میں ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔

ایشیاء میں بریسٹ کینسر کی شرح پاکستان میں سب سے زیادہ ہے ۔معروف اداکارہ اور سماجی کارکن ثانیہ سعید نے میڈ یا کے کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ معاشرے کے اہم مسائل بشمول ذہنی امراض اور بریسٹ کینسرجیسے موذی مرض سے آگاہی فراہم کرنے میں میڈیاکاکردار متاثر کن نہیں رہا۔میڈیا نے ریٹنگ کی دوڑ میں ان افراد کو ماہرین بنادیا جو مذکورہ شعبہ کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتے۔

ہمارے طلبہ میں ریڈنگ کلچر کا فقدان ہے اور وہ نصابی کتابوں کے علاوہ دوسری کتابیں پڑھنے پر وقت صرف نہیں کرتے ۔چیئر پر سن شعبہ نفسیات پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال نے تمام مہمانان گرامی کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ ذہنی امراض کئی اقسام ہیں جن میں انزائیٹی ٬ڈپریشن ٬ناامیدی اور لاچاری شامل ہیں ان سے جسم اور دماغ کمزورہوتے ہیں ۔ہمیں ذہنی امراض اور بالخصوص بریسٹ کینسر جیسے موذی امراض سے جارحانہ اندازمیں نمٹنے کی ضرورت ہے۔

شعبہ نفسیات اس ضمن میں مزید ورکشاپس اور آگاہی سیمینارکے انعقاد کو یقینی بنائے گا۔چیئر مین شعبہ نفسیات ڈائویونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر رضاالرحمن نے کہا کہ اگر کسی موذی مرض جیسے کینسر کے دوران مریض اگر ڈپریشن کا شکار ہوجائے تو اس کی موت کے امکانات 600 فیصد بڑھ جاتے ہیں ۔اس موقع پر کلینکل سائیکولوجسٹ عاشہ بیدار٬ روبینہ فیروز اور پروگرام کو آرڈینیٹر زاہرہ برکت علی نے بھی خطاب کیا ۔ #

متعلقہ عنوان :