سندھ نیشنل فرنٹ کے سربراہ ممتاز علی بھٹو کا لاڑکانہ شہر کا دورہ

مختلف مقامات پر معززین سے ملاقاتیں٬ کارنر میٹنگز اور استقبالیہ خطاب

بدھ 26 اکتوبر 2016 19:53

لاڑکانہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 اکتوبر2016ء) سندھ نیشنل فرنٹ کے سربراہ ممتاز علی بھٹو کا لاڑکانہ شہر کا دورہ٬ مختلف مقامات پر معززین سے ملاقاتیں٬ کارنر میٹنگز اور استقبالیہ کو خطاب٬ لوگوں کی فرنٹ میں شمولیت۔ تفصیلات کے مطابق سندھ نیشنل فرنٹ کے چیئرمین سردار ممتاز علی خان بھٹو نے لاڑکانہ شہر کے مختلف محلوں کا دورہ کیا٬ دورے کے دوران مختلف برادریوں کے معززین٬ سیاسی٬ سماجی شخصیات سے ملاقاتیں کیں٬ محلہ نیو مراد واہن میں محمد یعقوب ہلیو٬ محلہ خدا آباد میں مسکین بھٹو اورمحلہ بھینس کالونی میں سکندر علی کلہوڑو کی جانب سے دی گئی استقبالیہ تقریب اور کارنر میٹنگز کو خطاب کرتے ہوئے ممتاز علی بھٹو نے کہا کہ ایوب خان کے دورِ اقتدار میں جب شہید بھٹو سمیت ہم سب جیلوں میں چلے گئے تو بیگم نصرت بھٹو مرحومہ نے پارٹی قیادت سنبھال لی تھی اور احتجاجی تحریک کو مزید تیز کیا جب دوبارہ ضیائ دؤر میں شہید بھٹو کو جیل میں بند کیا گیا تو ایک بار پھر شہید بھٹو نے پارٹی قیادت بیگم نصرت بھٹو کے حوالے کردی٬ تو اس اقتدام کے خلاف مولانا کوثر نیازی اور مخدوم حامد رضا گیلانی سمیت اعتراضی گروپ سامنے آیا جو غلام مصطفی جتوئی کو چیئرمین بنانا چاہتے تھے مگر ان کی یہ مہم کامیاب نہ ہوسکی اور قیادت بیگم نصرت بھٹو مرحومہ نے ہی سنبھالی٬ بالآخر بعد ازاں بینظیر بھٹو نے ناپسندیدہ طریقے کار کے ذریعے اپنی والدہ کو ہٹا کر خود چیئرپرسن بن بیٹھی اور پیپلز پارٹی کے دروازے اپنے شہید والد کے دشمنوں کے لئے کھول دیے اور جب مین نے اس پر اعتراض کیا تو ان کے بجائے مجھے پارٹی سے نکال دیا گیا اس کے بعد مین نے سندھی بلوچ پختون فرنٹ بنایا اور جب بلوچ اور پختون چھوڑ گئے تو سندھ نیشنل فرنٹ بنایا۔

(جاری ہے)

ممتاز علی بھٹو نے مزید کہا کہ جیسے جیسے وقت گذر رہا ہے تو ملک ترقی کے بجائے رشو ت خوری اور بدامنی کی طرف تیزی سے جا رہا ہے۔ حال ہی میں کوئٹہ پولیس اکیڈمی میں بڑے پئمانے پرخونریزی کا واقعہ نہ صرف افسوسناک ہے مگر حکمرانوں کی ناکامی کا بڑا ثبوت ہے جس پر انہیں غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستعفی ہونا چاہئے مگر یہاں ایسی روایت نہیں ہے جس طرح برطانوی وزیراعظم ریفرنڈم میں ناکامی کے بعد استعفیٰ دیکر گھر چلا گیا۔

ممتاز علی بھٹو نے مزید کہا کہ کرپشن کے خلاف چیخ و پکار تو ایک عرصے سے جاری ہے مگر حال ہی میں سکھر میں زیپلوں کی کرپشن کے خلاف زیپلوں نے ہی پریس کانفرنس کر کے آواز اٹھائی ہے تو دوسری جانب شکارپور ضلع کے مدئجی اور گڑھی یاسین شہروں میں گندگی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے جس پر عدالت نے وہاں کے چیئرمینز اور سیکریٹری بلدیات سندھ کو وضاحت کے لئے طلب کیا تو انہوں نے عدالت میں اعتراف کیا کہ 13 ہزار غیرقانونی بھرتیاں ہوئی ہیں جو ملازمین کام پر آتے ہی نہیں٬ یہ تازہ مثال ہے کہ ووٹوں کے عیوض نوکریاں دینا ملک اور عوام سے دشمنی ہے کہ وہ تنخواہ تو لے رہے ہیں مگر کام پر نہیں آتے٬ زیپلوں کی حکمرانی سندھ میں ایسے لوگوں٬ پولیس اور دیگر بیورو کریسی پر مشتمل ہے جس نے سندھ کو تباہ اور برباد کردیا ہے٬ اچھی حکمرانی میں ترقیاتی کاموں کی وجہ سے جائز اسامیاں پیدا ہوتی ہیں جس پر اہل لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے اسی طرح ملک میں خوشحالی لائی جاتی ہے مگر یہاں تو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت عوام کو محتاج اور عادی بھکاری بنادیا گیا ہے اور یہ کتنی دکھ کی بات ہے کہ شہروں میں بینکوں کے دروازوں پر ہزاروں کی تعداد میں خواتین قطاریں لگائے کھڑی ہیں جو کہ قوم کی غیرت پر حملہ ہے۔

اس موقعے پر بھٹو برادری کے معززین مصور علی بھٹو اور شعیب علی بھٹو٬ احمد علی عباسی٬ شمن علی وکو اور فتح علی وکو نے اپنی برادری کے سینکڑوں افراد کے ہمراہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر سندھ نیشنل فرنٹ میں شمولیت کا اعلان کیا۔

متعلقہ عنوان :