چترال کے سینئر صحافی کا 13 سالہ بیٹا سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی غفلت کی وجہ سے جاں بحق٬ غمزدہ خاندا ن کو انصاف نہ مل سکا

بدھ 26 اکتوبر 2016 16:42

چترال ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 اکتوبر2016ء) خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے صحت کا انصاف اور محکمہ صحت میں ایمرجنسی کے نفاذ کے دعوے غلط ثابت ہوئے اور اس پر عملی طور پر کوئی کام نہیں ہوتا۔ جس کا منہ بولتا ثبوت چترال سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی گل حماد فاروقی کے تیرہ سالہ بیٹے کی موت ہے جو مبینہ طورپر سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی غفلت کی بھینٹ چڑھ گیا۔

سینئر صحافی گل حماد فاروقی کا 13 سالہ بیٹا محمد فرحان عمر پشاور پبلک سکول اینڈ کالج میں کلاس ششم کا طالب علم تھا٬ 29 جولائی 2016 کو اسے اچانک پیٹ میں درد کی شکایت ہوئی اوراسے فوری طور پر گورنمنٹ نصیر اللہ خان بابر میموریل (سٹی) ہسپتال کوہاٹ روڈ پشاور لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اس کی الٹرا سائونڈ بھی کی مگر اس کی اپینڈکس کی تشحیص نہ کرسکے اور یہ کہہ کر اسے واپس گھر بھیج دیا کہ بچے کے معدے میں زخم ہے۔

(جاری ہے)

30 جولائی اسے اُلٹیاں اور پیٹ میں شدید درد کی شکایت ہوئی جس پر اسے صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور لے جایا گیا جہاں او پی ڈی میں ڈاکٹر نے صرف ایکسرے کیا اور بغیر تشخیص کے اسے دوائی لکھ کر گھر بھیج دیا اوربتایا کہ مریض کے معدے میں معمولی زخم ہے جو دوائی سے ٹھیک ہوگا۔ اسی روز رات گیارہ بجے اسے ایک بار پھر شدید درد اور قے شروع ہو گئی جس پر اسے پھرلیڈی ریڈنگ اسپتال کے مین ایمرجنسی میں لے گئے جہاں انہیں پیچکاری کی گئی اور اسے سرجیکل وارڈ میں تھوڑی دیر کیلئے رکھا گیا اور مریض محمد فرحان کو رات ایک بجے واپس گھر بھیج دیا گیا۔

ڈاکٹروں نے پانچ دن کی دوائی تجویز کی اور مشورہ دیا کہ وہ گھر پر آرام کرے٬ ٹھیک ہوجائے گا۔ گل حماد فاروقی کے مطابق ان کے بیٹے کو اپینڈکس تھا اور ڈاکٹر یا تو نالائق تھے کہ اپینڈکس کی تشحیص نہ کرسکے یا یہ لوگ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کا صحیح معائنہ ہی نہیں کرتے۔ دو دن گھر پر تڑپنے کے بعد2 اگست کو فرحان کو پھر حیات آباد میڈیکل کمپلکس لے جانا پڑا جہاں ایک ڈاکٹر کو سفارش کرائی گئی جنہوںنے اس کا معائنہ کرکے بتایا کہ اس کو اپینڈکس ہے اور پہلے سے پھٹ چکا ہے اور اسے سرجیکل اے وارڈ میں داخل کیا گیا مگر ڈاکٹروں نے یہ کہہ کر اس کا فوری آپریشن نہیں کیا کہ اوٹی میں کسی مریض کا آپریشن ہورہا ہے۔

اس دوران فرحان کے والد نے فون پر اسی وارڈ کے سینئر سرجن ڈاکٹر صدیق احمد چترالی کو فون پر درخواست کی کہ وہ اسکے بیٹے کا فوری آپریشن کرے مگر بدقسمتی سے اسی وارڈ کے سرجن ہونے کے باوجود بھی نہ صرف اس نے اس کا آپریشن نہیں کیا بلکہ مریض کی حالت بھی نہیں پوچھی اور نہ ہی اس کا معائنہ کیا۔ فرحان کو ناک کے ذریعے پیٹ میں پائپ لگایا گیا اور ڈاکٹر نے یہ کہہ کر لواحقین کو ٹال دیاکہ اب اگر مریض اس حالت میں دو دن بھی پڑا رہے تو اس کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے حالانکہ طبی اصولوں کے مطابق مریض کا اپینڈکس پھٹنے کے فوراً بعد اس کا فوری آپریشن لازمی ہوتا ہے مگر حیات آباد میڈیکل کمپلکس کے ڈاکٹروں نے ایسا نہیں کیا جو پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اورضابطوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

اپینڈکس پھٹنے کے دس گھنٹے بعد شام کو مریض کا آپریشن ہوا مگر صبح تین بجے اس کی حالت انتہائی خرا ب ہوئی جس پر وارڈ کے ڈاکٹروں نے انہیں آئی سی یو میں ریفر کردیا تاہم وہاں کوئی بیڈ حالی نہیں تھا جس پر اسے خیبر ٹیچنگ ہسپتال لے گئے لیکن اب دیر ہوچکی تھی اور وہ تڑپ تڑپ کر جان کی بازی ہار چکا تھا۔ایک سینیر ڈاکٹر نے بتایا کہ اپینڈکس پھٹنے کے فوراً آپریشن کرنا چاہے تھا ٬ انہوںنے یہ بھی کہاکہ اگر فرحان کا اپینڈکس پھٹنے سے پہلے آپریشن ہوجاتا تو شائد وہ بچ جاتا۔

اگر چہ فرحان کا اپینڈکس پھٹ چکا تھا اور اس کا فوری طور پر آپریشن کرنا چاہئے تھا مگر سرکاری ہسپتالوں میں شائد ان مریضوں کا صحیح علاج ہوتا ہے جو ان ڈاکٹروں کے کلینکس میں جاکر ان کو فیس دیتے ہیں او ر وہی ڈاکٹر پھر ہسپتال میں ان کا خیال رکھتے ہیں ۔ ایک طرف صوبائی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ انہوںنے صحت کی ایمرجنسی لگائی ہے جبکہ دوسری طرف لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے ڈاکٹرز ہسپتال میں مریضوں کا صحیح طور پر معائنہ ہی نہیں کرتے نہ خود ان کا آپریشن کرتے ہیں ۔

مسیحائوں کے ہاتھوں گل حماد فاروقی کے مصائب ابھی ختم نہیں ہوئے تھے کہ فرحان کے انتقال کے بعد ان کی والدہ اورگل حماد کی اہلیہ کو پیٹ میں تکلیف ہوئی۔ تشحیص سے پتہ چلا کہ پیٹ میں رسولی ہے ٬انہیں ڈاکٹر صدیق چترالی کے کلنیک میں لیجایاگیا کیونکہ یہ لوگ اپنے کلینک میں مریض کا صحیح معائنہ کرتے ہیں٬ انہوںنے مطالبہ کیا کہ اگر 45000روپے دے سکتے ہو توپیر کے روز اپنے کلنک میں خود اپریشن کریں گے ورنہ ہسپتال میں ایک ہفتہ انتظار کرنے کے بعد مریض کو اپریشن کیلئے لمبی تاریح دی جائے گی۔

مجبوراً ایک اور ڈاکٹر کے کلینک میں مریضہ کا آپریشن کروایا جنہوںنے 25000 روپے فیس وصول کی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے ان ڈاکٹروں کی تنخواہیں بھی بڑھائی ہیں مگر ان سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والا کوئی بھی پروفیسر یا سینیر ڈاکٹر ہسپتا ل میں نہ تو خود اپریشن کرتا ہے اور نہ مریضوں کا معائنہ بلکہ لوگوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ان کی نجی کلنکوں میں جاکر بھاری فیس دیکر علاج کروائے۔

گل حماد فارقی نے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک ٬ انسپکٹر جنرل آف پولیس٬ صدر او ر رجسٹرار پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل اسلام آباد٬ ایس ایچ او تھانہ حیات آباد٬ ایس ایچ او تھانہ کابلی٬ ایس ایچ او تھانہ بھانہ مانڑی کو درخواستیں بھیجی ہیں کہ غفلت کے مرتکب ڈاکٹروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے مگر ابھی تک نہ تو ان ڈاکٹروں کے خلاف کوئی قانونی کاروائی کی گئی نہ پولیس نے مقدمہ درج کیا۔

ان کے والدین نے پشاور ہائی کورٹ میں انسانی حقوق کے ڈائریکٹوریٹ کو بھی اپیل کی جہاں سے ان کو تحریری جواب ملا کہ یہ کیس ان کی دائرہ کار سے باہر ہے اور ساتھ ہی مشورہ دیا گیا کہ وہ ان ڈاکٹروں کے خلاف فوجداری مقدمہ کیلئے تھانہ میںایف آئی ا ٓر درج کرائے اور ساتھ ہی عدالت میں ان کے خلاف ہرجانے کا بھی دعویٰ کرے۔ گل حماد اوران کی اہلیہ نے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس سے اپیل کی ہے کہ اس کیس میں ازخود نوٹس لیکر ان ڈاکٹروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔