اسٹیٹ بینک کے ذیلی ادارے بینکنگ سروسز کارپوریشن کے چار ڈیپارٹمنٹ کی لاہور منتقلی کا فیصلہ بی ایس سی کے آرڈیننس کی خلاف ورزی ہے ٬سیاسی پارٹیاں اسٹیٹ بینک کو تقسیم کردہ آرڈیننس کو پارلیمنٹ کی سطح پر رپیل کرکے اپنی ذمہ داری ادا کریں٬لیا قت ساہی

ہفتہ 22 اکتوبر 2016 18:59

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 22 اکتوبر2016ء) ڈیمو کریٹک ورکز یونین (سی بی ای) اسٹیٹ بینک آف پاکستان٬ ایس بی پی․بی ایس سی (بینک)کے مرکزی سیکریٹری جنرل لیا قت علی ساہی نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذیلی ادارے بینکنگ سروسز کارپوریشن کے چار ڈیپارٹمنٹ کی لاہور منتقلی کے فیصلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ کا فیصلہ صریحاً اسٹیٹ بینک آف پاکستان٬ بینکنگ سروسز کارپوریشن کے آرڈیننس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چار ڈیپارٹمنٹ کی منتقلی لاہور میںکرنے کے احکامات جاری کئے ہیں ٬ اس سلسلے میں سی بی اے یونین کے ساتھ بھی کوئی مشاورت نہیں کی گئی جس کی وجہ سے نہ صرف ملکی سطح پر تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر انتظامیہ کا فیصلہ ادارے ٬ ملک اور ملازمین کے مفاد میں تھا تو اس سلسلے میں مشاورت کیوں نہیں گئی۔

(جاری ہے)

انتظامیہ کو آرڈیننس میں پابند کیا گیا ہے کہ وہ بینکنگ سروسز کارپوریشن کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگاجس میں تمام ہیڈ آفس کے ڈیپارٹمنٹ شامل ہیں انتظامیہ کے اس فیصلے سے ہیڈ آفس دوحصوں میں تقسیم ہو گیا ہے جو کہ آرڈیننس کی خلاف ورزی ہے ۔ تاہم اس وقت ملکی سطح پر جس نظر سے اس کو دیکھا جا رہا ہے اس کے حقائق بھی تلخ ہیں قائد اعظم کے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذیلی ادارے بینکنگ سروسز کارپوریشن کے چار ڈیپارٹمنٹوں کی منتقلی کی مخالفت کی جارہی ہے لیکن جب پرویز مشرف کی آمرانہ دورے حکومت میں ایک آرڈیننس کے ذریعے ملک کے مرکزی بینک کو تقسیم کیا گیا تھا جس کے خلاف ہم نے پارلیمنٹ ٬ سیاسی پارٹیوں اور سپریم کورٹ کے دروازوں پر دستخط دی لیکن کسی نے ہمارے فریاد نہیں سُنی بارہ سال سپریم کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت رہا ہے اس کے بعد ہماری درخواست کو عدالت نے خارج کر دیا ٬ جب سترویں ترمیم کو پارلیمنٹ نے منظور کرنے کی کوشش کی تو اُس وقت بھی ہم نے تمام پارلیمنٹرین سے مطالبہ کیا کہ ملک کے مرکزی بینک کو ایک سازش کے تحت پرویز مشرف٬ شوکت عزیز اور ڈاکٹر عشرت حسین نے تقسیم کیا ہے اسے روکا جائے لیکن اس وقت کی پارلیمنٹرین نے سترھویں ترمیم میں اسٹیٹ بینک کی تقسیم کے آرڈیننس کو آئین کا حصہ بنا کر عوام کے ساتھ غداری کے مرتکب ہوئے ہیں٬ جبکہ جمہوریت کی بحال میں ملک بھر کے محنت کشوں نے اہم کردار ادا کیا تھا ٬ اٹھارویں ترمیم کی شفارشات کیلئے تمام سیاسی پارٹیوں کی نمائندگی پر مشتمل آئینی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کا چیئر مین رضا ربانی تھے ہم تمام ممبران کو باقاعدہ تحریری طور پر خطوط لکھے کہ مشرف کے تمام سیاہ قوانین کے ساتھ دیگر ساتھ ملک کے مرکزی بینک کے تقسیم کے آرڈیننس کو بھی رپیل کیا جائے بد قسمتی کے ساتھ اس کمیٹی نے بھی اپنی شفارشات میں اسٹیٹ بینک کے تقسیم کے آرڈیننس کو شامل کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا جبکہ اٹھارویں ترمیم اپنے مفادات میں جو قانون سازی تھی اس کو اپنے چارٹر میں شامل کرکے اٹھارویں ترمیم کو منظور کر لیا گیا ۔

اس وقت تمام سیاسی پارٹیوں کی طرف سے بے وقت کی راگنی بجائے جا رہی ہے جب ان کو ذمہ داری ادا کرنی تھی تو اس وقت مشرف کے آمرانہ اقدام کو آئین کا حصہ بنا کر انہوں نے نہ صرف اسٹیٹ بینک کے ملازمین کے ساتھ بلکہ اٹھار کروڑ عوام کے ادارے کو تقسیم ہو نے میں اپنا کردار ادا کیا ہے ہم تمام سیاسی پارٹیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں فوری طور اسٹیٹ بینک کی تقسیم کے آرڈیننس کو رپیل کرکے انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں اس فیصلے سے چاروں ڈیپارٹمنٹ بھی واپس ہو جائیں گے٬تاہم اٹھارویں ترمیم کی منظور ی کے بعد تمام وفاقی اداروں کے مرکزی دفاتر اسلام آباد منتقل ہونے چاہئیں۔

متعلقہ عنوان :