کرپشن کے خلاف سیاسی جماعتوں نے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا ٬ عدالت عظمی ٰ سے قوم کیلئے انصاف مانگتے ہیں٬سراج الحق

ہمیں امید ہے کہ عدالت قوم کو مایوس نہیں کرے گی ٬اس وقت پوری قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں٬حکومت کی نیت ٹھیک ہوتی تو احتساب کے سامنے روڑے نہ اٹکاتی ٬کرپشن کے کینسر کو روکا نہ گیا تو تمام ادارے تباہ ہوجائیں گے ٬حکمرانوں نے قومی دولت لوٹ کر باہر منتقل کی اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے قرضے لیکر قوم کے بچے بچے کو مقروض کیا٬حکومت پانامہ لیکس کی تحقیقات میں سنجیدہ نہیں ٬ہم 2016سے اور حکومت 1947سے احتساب چاہتی ہے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کی سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو

جمعرات 20 اکتوبر 2016 16:33

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 20 اکتوبر2016ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ کرپشن کے خلاف سیاسی جماعتوں نے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ ہم عدالت عظمی ٰ سے اپنی قوم کیلئے انصاف مانگتے ہیں ۔ ہمیں امید ہے کہ عدالت قوم کو مایوس نہیں کرے گی ۔اس وقت پوری قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں ۔

حکومت کی نیت ٹھیک ہوتی تو احتساب کے سامنے روڑے نہ اٹکاتی ۔کرپشن کے کینسر کو روکا نہ گیا تو تمام ادارے تباہ ہوجائیں گے ۔حکمرانوں نے قومی دولت لوٹ کر باہر منتقل کی اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے قرضے لیکر قوم کے بچے بچے کو مقروض کیا۔حکومت پانامہ لیکس کی تحقیقات میں سنجیدہ نہیں ۔ہم 2016سے اور حکومت 1947سے احتساب چاہتی ہے تاکہ قیامت تک اس کی باری نہ آسکے ۔

(جاری ہے)

وہ کرپشن کے خلاف اپنی درخواست پر سپریم کورٹ کی طرف سے وزیر اعظم کو دوہفتے کا نوٹس جاری ہونے کے بعدسپریم کورٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کررہے تھے ۔اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی میاں محمد اسلم اور اسد منظور بٹ ایڈووکیٹ بھی موجود تھے ۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ شفاف احتساب سے ہی کرپشن کے ناسور کو ختم کیا جاسکتا ہے ٬حکمران ٹولے کی کرپشن سے پورا نظام خطرے میں ہے ٬تمام ادارے ناکامی کی تصویر بنے ہوئے ہیں ۔

انہوں نے کہا ہے کہ حکومت پانامہ لیکس کی تحقیقات میں سنجیدہ نہیں٬ معاملہ کی تحقیقات کے لئے حکومت کمیشن بنانے میں ناکام ہو گئی ہے جن حکمرانوں اور پاکستانیوں کے نام پانامہ لیکس اور لندن لیکس میں آئے ہیں ان کا آڈٹ ہونا چاہئے٬ ہم چاہتے ہیں چوکوں٬ چوراہوں اور سڑکوں کی بجائے سپریم کورٹ فیصلہ کرے۔احتساب کا آغاز 2016ء سے اوروزیراعظم اور ان کے ٹولے سے ہو اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو٬ ہم کرپشن کے خلاف چوکوں اور چوراہوں میں بھی کھڑے ہیں اور عدلیہ میں بھی حاضر ہیں اگر نیب اور ایف آئی اے اپنا کام کرتی تو قوم کو ان پر اعتماد ہوتا٬ پانامہ لیکس پر کارروائی کرنا نیب کی ذمہ داری تھی۔

انہوں نے کہاکہ پہلی بار سیاسی جماعتوں نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ کرپشن اور کرپٹ ٹیم کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ آج ہم عدالت کے دروازے پر کھڑے انصاف مانگ رہے ہیں۔ اپنی قوم اور غریب عوام کے لئے ان لوگوں کے خلاف جو ظالم اور کرپٹ طبقہ ہے جنہوں نے میری قوم کا ہر ایک بچہ اپنی بداعمالیوں اور کرپشن کی وجہ سے ورلڈ بینک کا مقروض بنایا ۔

حکمران باہر سے قرضے لاتے اور پھر لوٹ کر واپس باہر لے جاتے ہیں۔ اگر عدالت نے قوم کو مایوس کیا تو پھر ملک میں جمہوریت ٬آئین ٬ قانون ہر چیز خطرے سے دوچار ہو گی۔حکومت نے 1956ء کے آئین کے مطابق کمیشن بنایاجو صرف تحقیقات کرسکتا تھا جسے اپوزیشن نے مسترد کردیا حکومت چاہتی تھی کہ اس کمیشن کی رپورٹ کو بھی حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ بنا دیا جائے اور ایبٹ آباد کمیشن کی طرح الماریوں کی زینت بنادیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے وزیراعظم اور ان کے ٹولے کو دو ہفتے کا وقت دیا ہے۔ہمارا اس پر اعتماد ہے۔میں کسی ایک پارٹی کی نہیں 20 کروڑ عوام کی طرف سے آیا ہوں۔یہ کسی کا کوئی ذاتی جھگڑا نہیں خالصتاً قوم کے مستقبل کا مسئلہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم مزید تماشا نہیں دیکھ سکتے٬ دو کروڑ بچے سکول نہیں جا سکتے٬ہر پانچواں پاکستانی ڈپریشن کا شکار اور علاج سے محروم ہے ٬لوگوں کوپینے کا صاف پانی نہیں مل رہاجبکہ دوسری طرف صدر اور ایک خاندان کی سیکیورٹی پر سالانہ سات ارب روپے سے زیادہ خرچ ہورہا ہے ۔

ایوان صدر میں گھوڑوں کے لیے اصطبل بنانے کے لیے پچاس کروڑ خرچ ہو رہا ہے جبکہ قوم کے بیٹے فٹ پاتھوں پر سونے پر مجبور ہیں۔ظلم و جبر کے اس نظام کے گریبان میں ہاتھ نہ ڈالنا بھی ظلم ہے۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ 22 اور 23 اکتوبر کو خیبرپختونخوا جماعت اسلامی کا بہت بڑا اجتماع ہے میں امید رکھتا ہوں اس میں کے پی اور قبائل کے لاکھوں عوام شریک ہوں گے۔

میں تمام صحافیوں کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دیتا ہوں۔ پھر 30 اکتوبر کو لاہور میں پانامہ لیکس٬ کرپشن اور کرپٹ سسٹم کے خلاف عظیم الشان مارچ ہو گا۔ اس کے بعد صوبہ سندھ کی باری ہے ۔عوام کرپشن کرنے والوں کو چھوڑیں گے نہیںبلکہ لوٹی گئی ایک ایک پائی کا حساب لیں گے۔انہوں نے کہا کہ نیب کی ذمہ داری تھی کہ وہ پانامہ لیکس کے بعد حرکت میں آتا لیکن نیب اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکا۔

اس وقت دو لاکھ 90 ہزار درخواستیں نیب کے پاس پڑی ہیں اور اربوں روپے خرچ کر کے نیب نے صرف 138 درخواستوں کو نمٹایا ہے۔ دو لاکھ 90 ہزار درخواستوں کو نمٹانے کے لئے نیب کے اہلکاروں کو حضرت نوح علیہ السلام کی عمرچاہئے٬ اگر نیب اور ایف آئی اے اپنا کام کرتی تو قوم کو ان پر اعتماد ہوتا۔نیب کے اخراجات اس کی جانب سے کی گئی ریکوریوں سے زیادہ ہیں۔ہم نے سپریم کورٹ سے عرض کی ہے کہ وہ نیب کے ادارے کو بھی فعال کرے اور ان کو اپنے فرائض سمجھانے کی کوشش کرے ۔