مشرق وسطیٰ میں تشدد کی لہر پر عالمی برادری نے ردعمل نہ دیا تو بڑا نقصان ہوگا ٬ْپاکستان

مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کی ضرورت ہے ٬ْ پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی کا خطاب داعش جیسے دیگر عناصر کے خاتمے کیلئے فوجی اقدامات کے ساتھ سیاسی بصیرت اور حکمت عملی کی بھی ضرورت ہے

جمعرات 20 اکتوبر 2016 14:07

نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 اکتوبر2016ء) اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں تشدد کی لہر پر عالمی برادری نے ردعمل نہ دیا تو بڑا نقصان ہوگا ٬ْمسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کی ضرورت ہے۔سلامتی کونسل میں مشرق وسطیٰ پر بحث کے سیشن میں تقریر کرتے ہوئے ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا کہ فلسطین پر سفاکانہ اور طویل قبضہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رہاہے ٬ْشام کی سنگین صورتحال بھی المیوں کو جنم دیرہی ہے۔

انہوںنے کہاکہ مشرق وسطیٰ کے بحرانوں کی وجہ سیلاکھوں لوگ مشکلات کا شکارہیں۔ دہشت گردی کے بڑھتے ناسور پر فوری قابوپاناہوگا۔ مشرق وسطیٰ میں جاری بحرانوں کا فوری حل ممکن نہیں۔ملیحہ لودھی نے کہا کہ پاکستان کے نزدیک مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیئے 1967سے قبل کی سرحدوں کے مطابق ایک آذاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ فلسطین پر غاصبانہ اسرائیلی قبضہ اور فلسطینی باشندوں کو حق خود ارادیت سے محروم رکھنا خطے میں بے سکونی اور بحرانی کیفیت کا بنیادی سبب ہے۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا کہ اسرائیلی آباد کاری کو روکنے میں سلامتی کونسل کی ناکامی سے اسرائیل کی ہٹ دھرمی میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شام کی سنگین صورتحال کے باعث انسانی مشکلات میں اضافہ ہو ا ہے اور متعدد افراد بے گھر ہوگئے ہیں اور انہیں مہاجرت اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

انہوں نے داعش اور دیگر شدت پسند گروہوں کے خاتمے پر زور دیتے ہوے کہا کہ شام کی جغرافیائی حدود کا تحفط لازمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ بین القوامی فوجی اتحاد عراق سے داعش کو نکال دے گا۔ ملیحہ لودھی نے کہا کہ داعش اور اس جیسے دیگر عناصر کے خاتمے کے لیے فوجی اقدامات کے ساتھ ساتھ سیاسی بصیرت اور حکمت عملی کی بھی ضرورت ہے تاکہ 2003سے مشکلات کے شکار عراق میں مختلف نسلی اور مذہبی گروہوں کے درمیان جاری تنازعات کو افہام و تفہیم سے حل کرکے دیرپا امن کی بنیاد رکھی جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ یمن میں امن کی بنیاد رکھنے کے لیے ایک ایسا نظام ضروری ہے جو یمن کے تمام سیاسی٬ مذہبی اور قبائیلی طبقات کے درمیان اتحاد اور مصالحت قائم رکھ سکے اور جسے بین الاقوامی حمایت حاصل ہو۔

متعلقہ عنوان :