سفارش ٬رشوت کے خاتمے کی پالیسی پر عملدرآمد نے پاکستان ریلویز کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں مدد کی‘ جب لوگوں کو یقین ہوگیا یہاں عزت کا حصول صرف کارکردگی کی بنیاد پر ہے تو ریل کا پہیہ ترقّی کی منازل طے کرنے لگا

وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا انٹرویو

ہفتہ 15 اکتوبر 2016 19:49

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 15 اکتوبر2016ء) وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ پاکستان ریلوے سے سفارش ٬رشوت کے خاتمے اور رائیٹ مین رائیٹ جاب کی پالیسی پر عملدرآمد نے پاکستان ریلوے کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں مدد کی٬کرپٹ کلچرل اور مائینڈ سیٹ کو بدل کر اچھے اور با صلاحیت افراد کی بہترین ٹیم بنانے میں ایک سال لگ گیا ٬جب لوگوں کو یقین ہوگیا کہ یہاں عزت کا حصول صرف کارکردگی کی بنیاد پر ہے اور کسی خاص و عام کی سفارش چلنے والی نہیں تو ریل کا پہیہ ترقّی کی منازل طے کرنے لگا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان ٹیلی ویڑن کے پروگرام ’’کھوئے ہوو٬ْں کی جستجو‘‘میںاظہارِ خیال کرتے ہوئے کیا۔وفاقی وزیر سعد رفیق نے بتایا کہ وہ نو سال کے تھے کہ جب ان کے والدخواجہ رفیق کو شہید کر دیا گیا اورانہوں نے اپنا بچپن اور جوانی کا زمانہ اپنی والدہ کے ہمراہ اندرون شہر لوہاری میں گزارا جو اعلیٰ روایات اور اقدار کا گڑھ تھا٬انہوں نے کھوئی ہوئی روایات اور اقدار کا تزکرہ کرتے ہوئے بتایاکہ ان کی والدہ کو پورے محلے کے بچے ماں کہہ کر پکارتے٬ہر با ریش کسی بھی نوجوان یا بچے کوغلط کام پر ڈانٹ ڈپٹ اور سزا دینے کا حق رکھتا تھا۔

(جاری ہے)

لوگ سیاسی روادادی اور برداشت کا بہترین نمونہ تھے۔اگر مخالف امیدوار کا پوسٹربھی امیدوار کی اپنی دیوار پر لگ جاتا تو اسے کوئی نہ اتارتا۔جب جیتنے والے امید وار کا جلوس ہارے امیدوار یا کسی ہاری ہوئی پارٹی کے لیڈر کے گھر کے پاس سے گزرتا تو خاموشی سے سر جھکا کے گزر جاتا۔الیکشن کی ہار کو دل سے لگانے کی بجائے ہارنے والا جتنے والے کو اس کے گھر جا کر مبارکباد دیتا۔

انہوں نے بتایا کہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال اور فیض احمد فیض ان کے پسندیدہ شاعر ہیں۔ معروف ادیب ٬شاعر اور کالم نگارعطاالحق قاسمی جو ایم اے او کالج میںوفاقی وزیر سعد رفیق کے استاد بھی تھے نے ماضی کے جھرکوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے صدرہونے کے باوجود سعد رفیق نے کبھی اپنی خاندانی روایات اور اقدار کو فراموش نہیں کیا تھا اورکالج میں ہمیشہ اساتذہ کی عزت کو مقدم سمجھا اور آج بھی جب یہ مجھے سر جھکا کے استادِ محترم کہہ کر مخاطب کرتا ہے تو مجھے کالج کا وہی سعد رفیق یاد آجاتا ہے۔

معاشرے میں مثبت رجحان کی ترغیب کیلئے یہ پروگرام بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔اس پروگرام کی میزبان فائزہ بخاری کا دلچسپ انداز بھی ناظرین کیلئے کشش کا باعث بن رہا ہے۔ پروگرام میں خود ساختہ دانشور ابرار ندیم کی مداخلت اوربانسری نواز حیدر رحمٰن نے بھی اسے دلچسپ بنایا۔پروگرام "کھوئے ہوو٬ْں کی جستجو" پروڈیوسر عمر خان کی پیشکش ہے جو بڑی ذمہ داری سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔