جون سے قبل ای پاسپورٹ سروس شروع کردی جائے گی٬ دو سال میں اس کا دائرہ کار ملک بھر میں پھلایا جائے گا٬ انگریزی اخبار کی غلط خبر کی تحقیات ہونی چاہئے٬ بغیر تصدیق کے غلط خبر شائع کرنے سے غیر ریاستی عناصر کے بارے میں دشمنوں کے موقف کی تشہیر کی گئی٬ صحافی نے بیرون ملک جانے کیلئے بکنگ کرائی اسلئے اس کا نام ای سی ایل پر ڈالا

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی صحافیوں سے گفتگو

جمعرات 13 اکتوبر 2016 21:38

اسلام آباد۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 اکتوبر2016ء) وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ جون سے قبل ای پاسپورٹ سروس شروع کردی جائے گی اور دو سال میں اس کا دائرہ کار ملک بھر میں پھلایا جائے گا٬ انگریزی اخبار کی غلط خبر کی تحقیات ہونی چاہئے٬ بغیر تصدیق کے غلط خبر شائع کرنے سے غیر ریاستی عناصر کے بارے میں دشمنوں کے موقف کی تشہیر کی گئی٬ صحافی نے بیرون ملک جانے کیلئے بکنگ کرائی اس لئے اس کا نام ای سی ایل پر ڈالا۔

جمعرات کو نادرا ہیڈ کوارٹر میں ای پاسپورٹ کے اجراء کے منصوبے کے افتتاح کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آن لائن پاسپورٹ سروس کا آغاز کر دیا گیا۔ اس سہولت کے ذریعے شہری گھر بیٹھے پاسپورٹ حاصل کرسکیں گے۔

(جاری ہے)

یہ سروس بیرون ملک کیلئے شروع کر دی گئی ہے۔ جون سے قبل ای پاسپورٹ سروس شروع کر دی جائے گی اور دو سال میں اس کا دائرہ کار ملک بھر میں پھیلا دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ وہ نادرا کی جانب سے عوام سے برتائو پر خوش نہیں٬ لائنوں میں کھڑا ہونا عوام کی تضحیک ہے٬ حکومت ملکی مسائل کے حل کیلئے پرعزم ہے اور اس سلسلے میں تیزی سے کام کر رہی ہے۔ وزیر داخلہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے حوالے سے سی پی این ای اور اے پی این ایس کے سینئر عہدیداران کو وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات کے ذریعے ملاقات کی دعوت دی ہے جس میں اس معاملے پر تفصیل سے بات ہوگی اورا ن کے سامنے حکومت کا موقف تفصیل سے بیان کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ سیکورٹی کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں دیگر اہم ایشوز کے ساتھ یہ معاملہ بھی زیر بحث آیا اور یہ بات کی گئی کہ سیکورٹی پیراڈائم کو ہٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اسلئے اس پر انکوائری ہونی چاہئے۔ انگریزی اخبار کی خبر ان ایکوریٹ ہے٬ یہ کس نے لیک کی٬ اس کی تحقیقات ہونی چاہئے٬ خبر دینے والے صحافی نے اپنی خبر میں خود اعتراف کیا ہے کہ سب نے اس خبر کی تردید کی ہے۔

پھر سوال یہ ہے کہ اگر خبر جھوٹی تھی تو شائع کیوں کی گئی۔ کس نے کہا تھا وزیر داخلہ نے کہا کہ حکومت کی طرف سے خبر کی تردید کے بعد معاملہ ختم ہوجانا چاہئے تھا۔ اے پی این ایس سے اس حوالے سے اتفاق کرتا ہوں لیکن خبر دینے والے صحافی نے اس کے بعد پھر ٹویٹ کی۔ انہوں نے کہا کہ اس خبر کے پیچھے کیا ہی اس خبر میں جو بیان دیا گیا ہے وہ ہمارے دشمنوں کا ہے۔

بھارتی اخبارات اور نیوز چینلز کا ریکارڈ نکال کر دیکھ لیں ان کے تجزیہ کاروں کے بیانات دیکھ لیں جن میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ بھارت جو کہتا تھا وہ ثابت ہوگیا ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ صحافی کو خود سوچنا چاہئے کہ ملکی مفاد کے خلاف اگر کوئی چیز ہو یا کوئی ملکی مفاد کے خلاف خبر فراہم کرے تو کیا کرنا ہے٬ بغیر تصدیق کے خبر شائع کرکے غیر ریاستی عناصر کے حوالے سے دشمنوں کے موقف کی تشہیر کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ ہوا۔ اس فیصلے کے بعد جب میں اپنے دفتر پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ جو شخص اس حوالے سے مرکزی کردار ہے وہ صبح ساڑھے 9 بجے ملک سے باہر جا رہا ہے۔ انکوائری کے فیصلے کے بعد ملک سے جانے کیلئے بکنگ کرائی گئی۔ اگر ہم جانے دیتے تو الزام ہم پر لگتا کہ مرکزی کردار کو ہم نے باہر بھجوا دیا ہے۔

مذکورہ صحافی پر نہ کوئی دبائو ہے نہ کوئی قدغن٬ وہ آزاد ہے لیکن نیوز رپورٹ کے حوالے سے انکوائری ہونی چاہئے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ جب صحافی نے خبر میں خود لکھا ہے کہ سب نے اس خبر کی تردید کی ہے پھر بھی اس نے خبر کیوں دی٬ اس خبر سے سیکورٹی کمپرومائز ہوئی جس نے یہ کیا ہے اسے جواب تو دینا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسلم لیگ (ن) ٬ فوج٬ میڈیا یا حکومت کا مسئلہ نہیں یہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے۔

ایک خبر نے دشمنوں کو ہم پر الزام تراشی کا موقع فراہم کیا ہے٬ جس نے یہ خبر لیک کی ہے اسے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ صحافیوں اور آزاد میڈیا کا دل سے احترام کرتے ہیں یہ نیشنل سیکورٹی کا مسئلہ ہے۔ دنیا میں اس خبر کے شادیانے بجائے جارہے ہیں٬ ہمارے پاس شواہد موجود ہیں۔ ان شواہد کے حوالے سے پوچھیں گے یہ درست ہیں یا غلط۔

انہوں نے کہا کہ صحافیوں کے سورس نے بتایا کہ حق کا احترام کرتے ہیں لیکن یہ معاملہ قومی سلامتی کا ہے۔ انکوائری میں شواہد کے حوالے سے سوال ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر خبر دینے والا صحافی ساڑھے 9 بجے کی بکنگ نہ کراتا تو ای سی ایل پر اس کا نام نہ ڈالا جاتا۔ دو تین اور اشخاص بھی اس انکوائری کا حصہ ہیں جو صحافی نہیں ہیں۔ تین چار دن میں یہ انکوائری مکمل ہو جائے گی۔

پھر وہ کہیں بھی جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غلط خبر دینے کی تحقیات ہونی چاہئے۔ برطانوی ہائی کمشنر سے ملاقات کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ملاقات میں الطاف حسین کے خلاف مقدامات پر بحث ہوئی۔ برطانیہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہت وسیع ہیں٬ عوام اس کیس کو گہری نظر سے دیکھ رہے ہیں اور دیکھنا چاہتے ہیں کہ برطانوی قانون جس پر دنیا اعتماد کرتی ہے وہ کس طرح کام کرتا ہے۔

برطانوی ہائی کمشنر سے منی لانڈرنگ اور ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس سمیت تمام کیسز کے حوالے سے بات ہوئی ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ اعلیٰ سطحی اجلاس کا ریکارڈ موجود ہے۔ میں کسی ایسے عسکری ذرائع کو نہیں مانتا جو چھپ کر بات کرے۔ اگر کوئی عسکری ذریعہ کوئی بات کرنا چاہتا ہے تو کھل کر بیان دے پھر وضاحت کروں گا اصل حالات کیا ہیں۔ وزیر داخلہ نے ایک اور سوال کے جواب میں بتایا کہ کراچی میں نائن زیرو کے قریب سے اسلحہ ملنے کے معاملے کی پولیس اور ایجنسیاں تحقیقات کر رہی ہیں٬ اس کیس میں میں خود گہری دلچسپی لے رہا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ الطاف حسین کے گھر پر پیسوں اور دیگر کاغذات کے علاوہ فہرست ملتی تھی۔

کراچی میں ہتھیاروں کی برآمدگی اور اس فہرست کا آپس میں تعلق ہے۔ ابھی تفتیش جاری ہے۔ قبل ازوقت اندازے نہیں لگانا چاہتا۔ صحافی تھوڑا انتظار کریں وہ اس حوالے سے انہیں اعتماد میں لیں گے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جب میرے یا حکومت کے خلاف کوئی خبر شائع ہوتی ہے تو ہم تردید چھپواتے ہیں۔ کسی اخبار نے تردید چھاپنے سے انکار نہیں کیا۔ ڈان نے انکار کیا۔ اس کے ایڈیٹوریل خلاف حقیقت ہوتے ہیں٬ ڈان حکومت کا قریبی اخبار نہیں ہے٬ اعلیٰ صحافتی اصول یہ ہے کہ خبر غلط ہو تو تردید چھاپی جاتی ہے۔ اب انہوں نے کس کے کہنے پر تردید چھاپی ہے یہ بھی سامنے آ جائے گا۔

متعلقہ عنوان :