اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کے نام پر تاریخی ورثوں کو مٹایا جارہاہے٬چیف جسٹس

عوام نے اگر ایسے ہی لوگوں کو ووٹ دیئے تو پھر ایسا ہی ہوگا٬سوال قومی تاریخی ورثے کے تحفظ کا ہے تاریخی ورثے ہماری شناخت ہیں ملک میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم٬ملک میں گڈ گورننس کے نام پر بیڈ گورننس جاری٬ فریقین سے ٹیکنیکل ماہرین کے نام طلب

جمعرات 13 اکتوبر 2016 20:42

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 13 اکتوبر2016ء) چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جما لی نے لاھور میں اورنج لائن ٹرین منصوبے کو روکنے کے لاھور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی جانب سے دائر اپیل کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کے نام پر تاریخی ورثوں کو مٹایا جارہاہے٬ عوام کو چاہئے کہ وہ اپنا نمائندہ منتخب کرتے ہوئے ووٹ کا حق احتیاط سے استعمال کریں٬عوام نے اگر ایسے ہی لوگوں کو ووٹ دیئے تو پھر ایسا ہی ہوگا٬سوال قومی تاریخی ورثے کے تحفظ کا ہے تاریخی ورثے ہماری شناخت ہیں٬ اب عوام کوچاہئے کہ اس رویئے کے خلاف کھڑے ہوجائیں٬ ملک میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے ٬ عوام سے جمہوریت کے نام پر مذاق ہورہا ہے٬ملک میں گڈ گورننس کے نام پر بیڈ گورننس جاری ہے٬ عدالت نے اورنج لائن منصوبے کے کیس میں دونو ں جانب کے فریقین سے معاونت کے لیے آج تین تین ٹیکنیکل ماہرین کے نام طلب کر لیے ہیں۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے اورنج لائن میٹرٹرین منصوبے سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی درخواست کی سماعت کی ۔پنجا ب حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میںکہا کہ ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ نہیں کہا کہ درست کیا ہے اور نہ کوئی وضاحت کی ٬کسی بھی تاریخی شہر میں ترقیاتی کاموں میں توازن رکھنا ہوتاہے٬ترقیاتی کام بھی ہوں اور تاریخی ورثہ بھی محفوظ رہے ٬اگر اورنج لائن ٹرین بننے سے شالامار باغ یا کوئی تاریخی عمارت گرتی ہے تو اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے لیکن ٹرین چلنے سے چوبرجی کو دیکھنے میں دقت ہو تو عدالت کو نظر انداز کرنا چاہیے٬ہائیکورٹ کے فیصلے میں پانچوں رپورٹس کو غلط قراردیا گیا٬ہائیکورٹ کے پاس ایساکوئی پیمانہ نہیں تھاجن کی بنیاد پر رپورٹس کو غلط قراردیا گیا٬ہائیکورٹ نے ایسے کسی نصاب یاپیمانے کا ذکر بھی اپنے فیصلے میں نہیں کیا٬ اورنج لائن منصوبے سے متعلق رپورٹس کی نفی بغیر قانونی جواز کی گئی٬ چیف جسٹس نے کہا کہ اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کے نام پر تاریخی ورثوں کو مٹایا جارہاہے٬ سوال قومی تاریخی ورثے کے تحفظ کا ہے تاریخی ورثے ہماری شناخت ہیں٬ عوام نے اگر ایسے ہی لوگوں کو ووٹ دیئے تو پھر ایسا ہی ہوگا٬ چیف جسٹس انورظہیرجمالی نے کہا کہ تاریخی عمارتیں قومی ورثہ ہیں تباہ نہیں ہونے دیں گے٬ عوام سے جمہوریت کے نام پر مذاق ہورہاہے ٬لوگوں کو اپنے نمائندے منتخب کرتے وقت سوچنا چاہیے ٬ایک انگریز جج نے کہا تھا جو لوگ ایسے لوگوں منتخب کرتے ہیں انہیں بھگتنا چاہیے٬گڈ گورننس کے نام پر بیڈ گورننس ہے٬ سوال قومی تاریخی ورثے کے تحفظ کا ہے تاریخی ورثے ہماری شناخت ہیںبتایا جا ئے کہ ٹرین چلنے سے تا ریخی عمارتو ں کو نقصان پہنچے گا یا نہیں ٬عدالت میںسول سوسائٹی نیٹ ورک اور سیسل اینڈ چو ہدری ایسوسی ایشن کی جانب سے اظہر صدیق ایڈوکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپیشل کمیٹی بنا نے میں مجھ کو اعتراض نہیں لیکن عدالت ایک مرتبہ اصول طے کر دے ۔

حکومت پنجاب بغیر کسی ٹینڈر کے پرا جیکٹ دیتی ہے اور متعلقہ محکمو ں سے این او سی پراجیکٹ کے شروع ہو نے کے بعد حا صل کر تی ہے٬اور ریگولیٹر اپنے اختیارات استمال نہیں کر تے اور حکومت پنجاب بعد ازاں کہتی ہے چو نکہ پرا جیکٹ شروع ہو گیا ہے اس لیے اس کو بننے دیں انہوں نے مزید کہا کہ اس روایت کو روکا جائے اور تمام ریگولیٹر اپنا کام وقت پر کر یں اور کسی بھی پرا جیکٹ کے لیے پہلے این او سی لیا جائے ۔ عدالت نے فریقین سے منصوبے سے متعلق معاونت کے لیے 3 ٹیکنیکل ماہرین کے نام مانگ لئے اور کہا ہے کہ ما ہرین اورنج لائن ٹرین سے متعلق تکنیکی رپورٹس کا جائزہ لیں ۔ کیس کی مزید سماعت آج جمعہ تک ملتوی کر دی گئی ہے ۔

متعلقہ عنوان :