اے پی این ایس اور سی پی این ای کا انگریزی اخبار کے اسسٹنٹ ایڈیٹر کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی مذمت

منگل 11 اکتوبر 2016 20:45

اسلام آباد٬ لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 اکتوبر2016ء) آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی(اے پی این ایس ) اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) نے ایک انگریزی اخبار کے اسسٹنٹ ایڈیٹر کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی مذمت کرتے ہوئے صحافی کا نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ سے نکانے کا مطالبہ کیا ہے٬ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم کے حکم پر ایک انگریزی اخبار کے سینیئر صحافی کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا ہے تاہم ذرائع کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انگریزی اخبار کے صحافی کا اندرون ملک نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں٬ دوسری جانب آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے ایک بیان میں کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں وزیراعظم کے دفتر سے انگریزی اخبار میں شائع شدہ خبر کے معاملے پر وضاحت سامنے رکھی ہے جبکہ اخبار کی جانب سے بھی واضح طور پر حکومتی تردید شائع کی گئی٬ لہذا اب اس معاملے کو ختم کیا جانا چاہئے٬ اے پی این ایس نے مطالبہ کیا ہے کہ روزنامہ ڈان کے سینیئر صحافی کا نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ سے ہٹایا جائے۔

(جاری ہے)

ادھر کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے صدر ضیا شاہد اور سیکرٹری جنرل اعجازالحق نے ایک مشترکہ بیان میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ڈان اخبار کے صحافی سیرل المائڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالنے کے فیصلے کو واپس لیا جائے۔ پاکستان میں اخبارات کے ایڈیٹرز کی نمائندہ تنظیم یہ سمجھتی ہے کہ آئین میں اظہار خیال کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے متعلقہ صحافی کی خبر کی تردید وزیراعظم ہائوس اور وزیراعلیٰ ہائوس پنجاب سے کی گئی تھی جس کو تمام اخبارات بشمول ڈان نے شائع کیا۔

اس کے باوجود اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ مندرجہ بالا خبر غلط ہے تو آئین اور قانون کے مطابق جو آزادی صحافت کی ضمانت دیتا ہے انتظامیہ کو حق حاصل ہے کہ وہ قانونی کارروائی کرے‘ لیکن مجاز عدالت ہی فیصلہ کر سکتی ہے کہ حکومت کا موقف درست ہے یا ادارہ اخبار کا۔ تاہم کسی بھی شخص یا ادارے کو صفائی کا موقع دیئے بغیر اس کے خلاف کسی قسم کا یکطرفہ ایکشن آئین پاکستان میں دی جانے والی آزادیوں کی نفی کرتا ہے۔

قومی اخبارات پوری ذمہ داری سے اپنی تحقیق کے مطابق خبر شائع کرتے ہیں۔ تاہم غلط یا صحیح قرار دینا کسی مجاز عدالت کا کام ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ آئین میں دی جانے والی آزادی صحافت کی ضمانت کو پیش نظر رکھتے ہوئے یکطرفہ فیصلہ نہیں کیا جائے گا اور آئین‘ وقانون کی سربلندی کا احترام ہو گا جو ہر جمہوری اور آزاد معاشرے کے لیے لازم ہے۔۔( وقار)