غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے پیش کردہ مسودہ قانون پر تحفظات کا اظہار٬جید علماکے ساتھ مشاورت ہونی چاہیے تھی‘پروفیسر ساجد میر

غیرت کے نام پر قتل کی صورت میں ورثا کو معافی یا دیت وصول کرنے کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا٬ یہ شریعتِ اسلامیہ سے کھلا انحراف ہے ٬ اولیا کو بیٹی کے نکاح میں اس کی رضامندی کا خیال رکھناچاہئے مگر گھر سے بھاگ کر نکاح کی کوئی ذی شعور حوصلہ افزائی نہیں کرسکتا

منگل 11 اکتوبر 2016 16:51

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 اکتوبر2016ء) امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان سینیٹر پروفیسر ساجد میر نیپارلیمنٹ میں غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے پیش کردہ مسودہ? قانون پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اس قانو ن کی کلی نہیں بلکہ جزوی حمایت کرتے ہیں ٬غیرت کے نام پر قتل کی صورت میں ورثا کو معافی یا دیت وصول کرنے کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا٬ یہ شریعتِ اسلامیہ سے کھلا انحراف ہے۔

قانون میں غیرت کی تعریف کرتے ہوئے جن بہت سے جرائم کویکجا کردیا گیا ہے٬ ان سب کا حکم شرعاً ایک نہیں۔قانون سازی کے لیے جید علماکے ساتھ مشاورت ہونی چاہیے تھی۔مرکزی دفتر106 راوی روڈ سے جاری کردہ اعلامیہ میں پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ چند اسلام مخالف این جی اوز غیرت کے نام پر قتل کی آڑمیں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کر رہی ہیں لہٰذا اس کے تدارک کے لئے بھی حکومت کو موثر قانون سازی کرنا ہو گی تاکہ دین اسلام کی روشن تعلیمات کو ہدف تنقید نہ بنایا جاسکے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ نکاح اور شادی کے معاملات میں عورتوں کی بے باکی ہرگز درست نہیں اور اولیا کی سرپرستی ناگزیر ہے البتہ عورتوں پر جبر جائز نہیں بلکہ اولیا کو ان کی رضامندی معلوم کرنے کے بعد نکاح کے معاملات طے کرنے چاہئیں۔اولیا کو اپنی بیٹی کے نکاح میں اس کی رضامندی کا خیال رکھناچاہئے اور لڑکی کو بھی اپنے اولیاکی خوشی کو مدنظر رکھنا چاہئے تاہم گھر سے بھاگ کر نکاح کی کوئی ذی شعور حوصلہ افزائی نہیں کرسکتا۔

انہوں نے کہا کہ غیرت ایک فطری جذبہ ہے تاہم اس جذبے کو درست اور شریعت کی حدود میں رہناچاہیے اور اس کے ناجائز استعال کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔ بیحیائی٬فحاشی وغیرہ کی روک تھام کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے۔ غیرت کے جرائم٬ ایک سابقہ جرم کا ردعمل ہیں٬ اگر عمل کو کنٹرول کرلیا جائے تو ردعمل میں بھی توازن پیدا کیا جاسکتا ہے۔ غیرت کے نام پر کسی بھی ابتدائی یا سنگین تر صورت میں بھی قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے قتل نہیں کیا جاسکتا٬ ایسا کرنا شرعاً ممنوع اورگناہ ہے۔

اعلامیہ میںمزید کہا گیا کہ معاشرے میں قانون ہاتھ میں لینے جیسے واقعات بڑھ جانے کی صورت میں اس کے انسداد کے لیے بھی تعزیری سزا نافذ کی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جرائم غیرت٬ سابقہ جرائم کا رد عمل ہیں٬ اس کی قانونی وشرعی حیثیت کا تعین سابقہ جرائم کی روشنی میں ہی ہوگا۔اگر کوئی غیرت کے نام پر قتل کربیٹھے تو اس کے سلسلے میں قانونی وشرعی تقاضے پورے کرنے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ ورثا کو معافی یا دیت وصول کرنے کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا٬ یہ شریعتِ اسلامیہ سے کھلا انحراف ہے۔ غیرت کے نام پر قتل وغیرہ کی صورت میں بھی شریعت نے اس حق سے اُنہیں محروم نہیں کیا۔حدود اللہ کا اسکی روح کے مطابق نفاذ ہی مسائل کا حقیقی خاتمہ کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال کی اصل وجہ سماجی تضادات اورقانون و طریقہ اجرا کی اُلجھنیں ہیں٬ جن میں مزید شدت پیدا کرنے کی بجائے قانون کو متوازن اورطریقہ نفاذ کو بامقصد بنا کر مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

متعلقہ عنوان :