پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس‘ سینیٹر مشاہد اللہ کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنانے پر پیپلز پارٹی کا شدید احتجاج

جمعرات 6 اکتوبر 2016 16:50

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔۔06 اکتوبر۔2016ء) پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ن) سینیٹر مشاہد اللہ کی جانب سے پیپلز پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنانے پر پیپلز پارٹی کا شدید احتجاج ،پیپلز پارٹی کے ارکان نے مودی کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے کے نعرے لگانے شروع کردیئے اور مشترکہ اجلاس سے واک آؤٹ کی کوشش کی مگر جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق اور سپیکر ایاز صادق نے انہیں واک آؤک کرنے سے روک لیا ۔

جمعرات کو مسلم لیگ (ن)کے سینیٹر مشاہد اللہ نے پیپلز پارٹی پر شدیدتنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہاں وزیر اعظم پر تنقید کی گئی کہ انہوں نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کا نام نہیں لیا،مگر کلبھوشن یادیو کے ڈوزیئر اقوام متحدہ ا ور دنیا کے ہر فورم پر ثبوتوں کے سات پڑے ہیں نواز شریف کام والا آدمی ہے بڑھکیں مارنے والا نہیں،ہم نے یہ بھی دیکھا کہ سکھوں کی فہرستیں بھارتی انٹیلی جنس چیف کو دی گئیں ، بینظیر بھٹو شہید کا فہرستیں دیے جانے پر شکریہ ادا کیا گیا ۔

(جاری ہے)

اس موقع پر پیپلز پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ نے شور مچانا شروع کر دیا اور مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار کے نعرے لگائے ۔جس پر سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ یہ خود کوجمہوریت پسند پارٹی کہتے ہیں ان کے تماشے دیکھیں، انہیں یہ بتانا ہوگا کہ انہیں چھلانگیں مارنا کس نے سکھایا ، انہوں نے کہا کہ ہم میں بات سننے کا حوصلہ ہے آپ کہتے ہیں کہ 2018ء میں وزیر اعظم پیپلز پارٹی کا ہو گا اور نواز شریف جیل میں ہو گا ،مگر 2018ء میں و زیر اعظم نواز شریف ہی ہو گا اور جیل میں کون ہو گا اسکا فیصلہ خود کر لیں،جو آج یہاں گلے پھاڑ کر کہتے ہیں وہ سند ھ میں جا کراپنا جوش دکھائیں، اگر ایسے کرپشن چلتی رہی تو 2028 میں بھی پیپلز پارٹی نہیں جیت سکے گی۔

پانامہ میں نواز شریف نہیں بے نظیر بھٹو کا نام ہے ،پانامہ پیپرز کی 560 آف شور کمپنیوں میں سے 558 پیپلز پارٹی کے لوگوں کی ہیں،جس پر پیپلز پارٹی کر ارکان پارلیمنٹ نے مودی کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے کے نعرے لگانے شروع کردیئے،اور ایوان میں کھڑے ہو کر احتجاجاًڈیسک بجانا شروع کردئیے،اس موقع پر قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ ہم نے کسی کو برا بھلا نہیں کہا، جس کی ماں نے کبھی کشمیریوں کے لیے ریشم اور زیورات نہیں پہنے انہیں غداروں میں شامل کرتے ہیں ۔

ہم اسمبلی میں شور شرابا کرکے نئی دہلی کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، اگر حکومت کہتی ہے اپوزیشن منہ کو ٹیپ لگادے تو ٹھیک ہے۔ ایک جماعت تو پہلے ہی پارلیمنٹ کے اجلاس کا بائیکاٹ کرچکی ہے۔ اب اسپیکر فیصلہ کرلیں وہ جارہے ہیں، ہم یہاں بیٹھ کر گالیاں نہیں سن سکتے۔ ہم چلے جاتے ہیں ًآپ باتیں کریں جس کے بعد پیپلز پارٹی نے ایوان کا بائیکاٹ کرنا چاہا مگر سپیکر ایاز صادق اور جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے انہیں روک لیا۔

سپیکر ایاز صادق نے خورشید شاہ کو مناتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے معاملے پر یہ اجلاس بلایا گیا جس سے لڑنا چاہیے اس سے ہم لڑ نہیں رہے مگر آپس میں لڑ رہے ہیں، بہت سے ارکان نے یہاں کشمیر کے معاملے سے ہٹ کر بات کی،جس پر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہاکہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ کشمیر کے معاملے پر متحد ہوں، ہمیں بارڈر پر اتحا د کا پیغام دینا ہے، ہم پارلیمنٹرینز ہیں لوگوں سے ووٹ لے کر آتے ہیں میں اپنی طاقت کو سمجھتا ہوں ۔

اس موقع پر قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ گزشتہ روز معاملات اچھے چل رہے تھے اور کشمیر کے حوالے سے اچھا پیغام گیا۔ یہ اتحاد پاکستان کیلئے نہیں بلکہ کشمیر کیلئے ضروری ہے۔ اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معذرت چاہتا ہوں۔ سینیٹر مشاہد اللہ نے کہاکہ میں نے کسی کو گالی نہیں دی۔ اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو معذرت چاہتا ہوں۔ میں ایک جمہوری آدمی ہوں بھاگنے والا نہیں۔

سینٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن نے کہاکہ مجھے پہلے ہی خدشہ تھا کہ ”جی جی بریگیڈ“ میرے خلاف توپیں چلائے گی، سکھوں کی فہرستیں بھارتی اداروں کو دی گئیں پہلے تو ایسی کوئی خبر نہیں تھیں مگر اگر ایسی کوئی فہرست اگر کسی سویلین کے پاس آ گئی اور اس نے وہ فہرستیں بھارتیوں کو دیدی تو اس کو اٹک جیل میں گولی مار دی جاتی ۔ حکومت الزام نہیں لگاتی پرچہ دے دیتی ہے، گالی گلوچ بریگیڈ کے پاس الزام رہ جاتے ہیں، جب کچھ نہیں ملتا تو ایل پی جی یا سکھوں کی فہرستیں کی بات کی جاتی ہے۔

انہوں نے اسمبلی میں کہا تھا الزام نہ لگائیں مقدمہ چلائیں، انہیں کوئی ڈرا یا غائب نہیں کرسکتا، وہ نہ پہلے بھاگے تھے اور نہ اب بھاگیں گے، پرویز مشرف کی سب سے زیادہ مخالفت انہوں نے کی، باقی تو10سال کے لیے باہر چلے گئے تھے۔ انہوں نے کہاکہ اپوزیشن کا کام تنقید کرنا ہوتا ہے حکومت کو چاہیے کہ اس تنقید کو برداشت کرے۔ ماضی میں جتنی بھی حکومتیں گریں اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ ان میں تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ اس لئے ”جی جی بریگیڈ“ برداشت کو بڑھائے۔