Live Updates

قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے پانامہ پیپرز انکشافات ،قرضوں کی معافی،غیر قانونی طور پر فنڈز کی بیرون ملک منتقلی اور تمام آف شور کمپنیوں کی تحقیقات سے متعلق ’’ پاکستان کمیشن آف انکوائری بل 2016‘‘ کی منظوری دیدی، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے ارکان عدم موجود،بل اب منظوری کے لئے قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا

حکومتی بل سپریم کورٹ کی سفارشات،دونوں ایوانوں کی متفقہ منظور قراردادوں کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا،اس سے پانامہ پیپرز سمیت دیگر آف شور کمپنیوں،غیر قانونی فنڈز کی بیرون ممالک منتقلی کی تحقیقات ہوسکیں گی،اپوزیشن کا بل آئین اور انسانی حقوق کے خلاف ، مخصوص اشخاص کو نشانہ بنانے کیلئے بنایا گیا ، وفاقی وزیر زاہد حامد کی کمیٹی کو بریفنگ

بدھ 5 اکتوبر 2016 19:25

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 5 اکتوبر- 2016ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے ارکان کمیٹی کی غیر موجودگی میں پانامہ پیپرز انکشافات ،قرضوں کی معافی،غیر قانونی طور پر فنڈز کی بیرون ملک منتقلی اور تمام آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کیلئے جمع کروائے گئے حکومتی بل’’ پاکستان کمیشن آف انکوائری بل 2016‘‘ کی منظوری دیدی،قائمہ کمیٹی سے منظوری کے بعد بل قومی اسمبلی کے اجلاس میں منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا،وفاقی وزیر زاہد حامد نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی بل سپریم کورٹ آف پاکستان کی سفارشات،دونوں ایوانوں کی متفقہ پاس ہونے والی قراردادوں کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا،جس سے پانامہ پیپرز سمیت دیگر آف شور کمپنیوں،غیر قانونی فنڈز کی بیرون ممالک منتقلی کی تحقیقات ہوسکیں گی،اپوزیشن کا بل آئین اور انسانی حقوق کے خلاف ہے،اپوزیشن نے بل مخصوص اشخاص کو نشانہ بنانے کیلئے بنایا۔

(جاری ہے)

بدھ کو کمیٹی کا اجلاس چیئرمین محمد بشیر ورک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔جس میں کمیٹی ارکان چوہدری محمد اشرف،محسن شاہ نواز رانجھا،محمد معین وٹو،کرن حیدر،ممتاز احمد تارڑ،آسیہ ناز تنولی،رجب علی خان بلوچ،ایس اے اقبال قادری کے علاوہ وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد،سیکرٹری وزرات قانون و دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔کمیٹی کو ’’ پاکستان کمیشن آف انکوائری بل 2016‘‘ پر بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ پانامہ پیپرز انکشافات سامنے آنے کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے خطاب میں کمیشن کے قیام کا اعلان کیا،جس کے بعد22اپریل کو حکومت نے سپریم کورٹ کو کمیشن کے قیام کیلئے خط لکھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اب تک جتنے بھی کمیشن بنائے گئے وہ انکوائری ایکٹ1956کے تحت بنے ماسوائے جنرل الیکشن 2013کی تحقیقات کے علاوہ،سپریم کورٹ نے 16مئی کو حکومت کو جواب دیا کہ انکوائری ایکٹ 1956کے تحت اگر کمیشن بنایا گیا تو وہ بے اثر ہوگا اور پانامہ کے علاوہ حکومت نے جن آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کا کہا ہے وہ ان لوگوں کے نام لکھ کر حکومت کو بھجوائے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جواب کے بعد 19مئی کو قومی اسمبلی میں پانامہ کی تحقیقات کیلئے متفقہ قرارداد منظورہوئی اور اس کے اگلے روز سینیٹ سے بھی اس حوالے سے متفقہ قرارداد منظور کی گئی جن میں مطالبہ کیا گیا کہ پانامہ پیپرز کے انکشافات،دیگر آف شور کمپنیوں،قرضوں کی معافی اور غیر قانونی طریقے سے رقوم کی بیرون ملک منتقلی کی تحقیقات کی جائیں اور قراردادوں میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر ٹی او آرز تشکیل دیں،جس کے بعد ٹی او آرز کمیٹی تشکیل دی گئی اور اس کمیٹی کے 8سے9اجلاس منعقد ہوئے مگر بدقسمتی سے کمیٹی ہی ٹی او آرز پر اتفاق نہ ہوسکا۔

کمیٹی میں اپوزیشن نے ایسے ٹی او آرز پیش کئے جن کا مقصد صرف وزیراعظم نوازشریف کو نشانہ بنانا تھا۔انہوں نے کہا کہ ٹی او آرز کمیٹی میں اتفاق نہ ہونے کے بعد حکومت نے قومی اسمبلی اور اپوزیشن نے سینیٹ میں اپنے اپنے الگ بل پیش کردیئے،حکومت چاہتی تھی کہ ایک ہی بل اتفاق رائے سے پیش کریں مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا،اپوزیشن کا بل غیر آئینی،انسانی حقوق کیخلاف ہے،اور مخصوص ایک شخص کو سامنے رکھ کر بنایا گیا،اپوزیشن کے بل بھی پانامہ پیپرز میں جن آف شور کمپنیوں کا ذکر نہیں آیا تھا انکے خلاف تحقیقات نہیں ہوسکتی ہیں اور اپوزیشن نے عمران خان،جہانگیر ترین اور دیگر وہ لوگ جن کا پانامہ میں ذکر نہیں ان کو تحقیقات سے آزاد کردیا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے جو بل بنایا اس میں سپریم کورٹ کی ہدایت اور دونوں ایوانوں کی متفقہ پاس ہونے والی قراردادوں کو مدنظر رکھ کر بتایا گیا،حکومتی بل کے تحت سول کورٹس پاورز کیساتھ کریمنلز کورٹ کی پاورز تحقیقاتی کمیشن کو دی گئی ہیں،اس کے علاوہ بل کے تحت کمیشن غیر ملکی ماہرین،غیر ملکی تحقیقاتی ٹیمیں پانامہ سمیت دیگر آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کرسکے گا اور کوئی بھی پاکستانی اس کمیشن کو براہ راست کسی بھی قسم کے دستاویزات دے سکے گا۔

اس موقع پر چیئرمین کمیٹی محمود بشیر ورک نے کہا کہ ہمارا ٹی او آرز کمیٹی سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں،ہم نے اس بل کو دیکھنا ہے کہ آیا یہ قانون اور آئین کے مطابق ہے کہ نہیں اور کیا یہ بل دونوں ایوانوں میں پاس ہونے والی قراردادوں کے مطابق ہے کہ نہیں۔اس موقع پر کمیٹی رکن ایس اے اقبال قادری نے کہا کہ لاء ڈیپارٹمنٹ کو1956کے ایکٹ اور اس بل کا تقابلی جائزہ پیش کرنا چاہیے تھا،اس بل میں کمیشن کے ارکان کا کوئی ذکر نہیں،بل کی کلاس3میں یہ لکھا جائے کہ کمیشن کے ممبران کی تعداد زیادہ سے زیادہ 5ہونی چاہیے اور کمیشن میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ ججز ہونے چاہئیں، رپورٹ حکومت ایک مہینے کے اندر اندر شائع کرے گی اگر حکومت کمیشن کی رپورٹ جاری نہیں کرتی تو وہ کمیشن کی توہین کی مرتکب پائی جائے گی۔

جس پر وفاقی وزیر زاہد حامد نے کہا کہ بل میں ہم نے پہلے ہی لکھ دیا ہے کہ کمیشن کی رپورٹ شائع کی جائے گی۔ایم کیو ایم کے ایس اے اقبال قادری نے کہا کہ کمیشن کی جانب سے ہدایت ملنے کے بعد 18ویں گریڈ کے آفیسر کسی جگہ کارروائی کریں حکومت نے بل میں 17ویں گریڈ کے افسران کو کارروائی کا کہا ہے جس کو تبدیل کیا جائے جس پر کمیشن نے ان کی تجویز کو مان لیا اور بل میں کارروائی کا اختیار17ویں کی بجائے 18ویں گریڈ کے آفسر کو دیدیا۔بعدازاں کمیٹی نے بل کو متفقہ طورپر منظور کرلیا،کمیٹی سے منظوری کے بعد بل اب قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات