قرآن و سنت سے عملی وابستگی نجات کا واحد ذریعہ ہے، ڈاکٹر الدریویش

مسلکی رواداری کے فروغ کے لئے باہمی برداشت اور صبر و تحمل کا رویہ اپنانے کی ضرورت ہے، مشترکہ اعلامیہ بین المسالک ہم آہنگی ، رواداری کے موضوع پر سیمینار سے آصف لقمان قاضی، علامہ عارف واحدی، ڈاکٹر ثاقب اکبر، مولانا محمد یوسف شاہ اور ڈاکٹر حسن الامین کا خطاب،

منگل 4 اکتوبر 2016 18:08

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 4 اکتوبر- 2016ء) بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ کے زیر اہتمام بین المسالک ، براداشت و ہم آہنگی کے موضوع پر ایک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں تمام مسالک کے علماء اور دانشوروں نے خطاب کیا ۔سیمینار کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ تمام علماء اپنے دائرہ عمل میں بین المسالک برداشت ، ہم آہنگی ، رواداری اور بقائے باہمی کے فروغ کے لیے حتی الواسع کوشش کریں گے اور مسلکی اختلافات کے حل کے لیے قرآن و سنت کو تعلیمات کو حجت تسلیم کریں گے۔

تمام مسالک میں موجود ایسا مواد اور لٹریچر جو مسلکی اختلافات کے فروغ کا باعث بنے اس کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور کسی دوسرے مسلک کے خلاف مہم چلانے اور زبردستی اپنا مسلکی تسلط قائم کرنے ، بہتان طرازی ، طعن و تشنیع جیسے غیر اخلاقی رویوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔

(جاری ہے)

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش نے کہا کہ اسلامی یونیورسٹی بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی سمیت محبت اور امن کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مسلم امہ اس وقت مسائل کے حصار میں ہے جس سے نکلنے کے لیے علماء اپنا کردار ادا کریں ۔ انہوں نے کہا اسلامی یونیورسٹی اتحاد و اتفاق کی علمبردار ہے اور امت مسلمہ کی وحدت کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دے رہی ہے ۔ ڈاکٹر الدریویش کا کہنا تھا اختلاف اور تفرقات مسلم دنیا کے لیے عذاب کی مانند ہیں جس سے نجات کا واحد ذریعہ قرآن و سنت سے عملی وابستگی ہے۔

صدر جامعہ نے کہا کہ ہمیں آپس کے اختلافات کو سمجھ کر اور باہمی اخوت و محبت سے عالمی سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ انہوں نے واضح کیا اسلام دشمن قوتیں مذہبی ، مسلکی اور سیاسی بنیادوں پر مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوششیں کر رہی ہیں لہذا معمولی نوعیت کے اختلافات سے اجتناب کرتے ہوئے امت کا ایک وحدت کے طور پر اکٹھے ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے اس بات سے اتفاق کیا کہ مذہبی رواداری کا فروغ معاشرتی رویوں میں فروغ پاتا ہے اورمناسب اسلامی تربیت نہ ہونے کے باعث معاشرے میں عدم برداشت کو تقویت ملتی ہے۔ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ نظریات کا بزور بازو اطلاق کسی بھی حوالے سے جائز نہیں اور اعلیٰ انسانی برتاو اور اخلاق تمام مسائل کا حل ہے ۔ علماء اس بات پر متفق تھے کہ اشتعال انگیزی اور نفرت کے رویوں کی روک تھام کے لیے تمام مسالک کے جید علماء کرام کو آگے بڑھ کر اقدام کرنے ہوں گے اور دین اسلام کی اشاعت اس کی صحیح روح کے مطابق ہونی چاہیے۔

انہوں نے اس بات کا بھی اقرار کیا کہ تبادلہ افکار کے ذریعے مسائل کا حل ممکن ہے جس کے لیے ایک مخصوص ادارہ قائم ہونا چاہیے تاکہ اختلافی فقہی مسائل عوام تک منتقل نہ ہوں ۔ علماء نے کہا کہ تمام مسالک کے اندر پیشہ وریت اور انتہا پسندی کے عناصر موجود ہیں جن کی سرکوبی تمام مسالک کے جید علماء کے ذمہ داری ہے۔ سیمینار سے علامہ عارف حسین واحدی ، ڈاکٹر ثاقب اکبر ، مولانا محمد یوسف شاہ ، علامہ تنویر علوی ، آصف لقمان قاضی، عبدالقدیر خاموش، ڈاکٹر حسن الامین ، ڈاکٹر محمد منیر، ڈاکٹر طاہر محمود، مولانا ابو بکر صدیق ، سبوح سید، اور جڑواں شہروں کے دیگر علما ء اور دانشوروں نے خطاب کیا۔

متعلقہ عنوان :