پاکستان چین کیلئے کیلیفورنیا ثابت ہو سکتا ہے ‘ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کیلئے گیم چینجر ہے ‘ پاکستان افریقہ ، مشرق وسطیٰ ، ایشیاء ، چینی اور روسی منڈیوں تک پہنچ جائیگا ‘ سی پیک سے پاکستان میں ترقی کی شرح اور روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو گا

آئی پی آر آئی کے زیر اہتمام کانفرنس سے سلیمان شاہ ، صائمہ شفیق اور دیگر مقررین کا خطاب

منگل 4 اکتوبر 2016 14:23

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔۔04 اکتوبر۔2016ء ) اقتصادی طورپر چین کے لئے پاکستان کی وہی حیثیت ہو سکتی ہے جو امریکہ کیلئے کیلیفورنیا کی ہے ، یہ دونوں برادر ملکوں کے لئے مستقبل میں اقتصادی اہداف حاصل کرنے کے لئے ایک کامیاب صورتحال ہے ، پاکستان میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کا 46ارب ڈالر کا منصوبہ معاشی گیم چینجر بن رہا ہے جو پاکستان کی بندر گاہ گوادر کو چینی صوبہ سنکیانگ کے ساتھ ملا رہا ہے جس سے چین کو مغربی بحر ہند تک براہ راست زمینی رسائی حاصل ہو گئی ہے اور اس طرح چین وسطی ایشیاء ، مغربی ایشیاء اور مغربی چین کیلئے ایک تجارتی مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا ہے ۔

ان خیالات کا اظہار” سی پیک کے پاکستان اور علاقے کی مائیکرو اور میکرو اکنامکس پر اثرات“ کے حوالے سے منعقد کی گئی کانفرنس میں مقررین نے کیا ۔

(جاری ہے)

کانفرنس سے دیگر ممتاز دانشوروں کے علاوہ سینئر ماہر معیشت سلیمان شاہ ، پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران ، چینی سفارتخانے کے چارج ڈی افیئر ژاؤ لی جیان ، سفیر سہیل امین اور اشفاق حسن خان نے خطاب کیا ۔

کانفرنس کا اہتمام اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آئی پی آر آئی ) اور جرمن ہینز شیڈل فاؤنڈیشن میں مشترکہ طورپر کیا تھا ۔ معاشی تجزیہ نگار اور ماہر معیشت سلیمان شاہ اور دیگر مقررین نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کیلئے حقیقی طورپر گیم چینجر ثابت ہو گا ، اس سے بیجنگ اور اسلام آباد کو اپنے اقتصادی اہداف حاصل ہوں گے ، عالمی سطح پر چین دنیا بھر میں زرمبادلہ کے سب سے زیادہ ذخائر رکھنے والے ملکوں میں سے ہے ، جس کے زرمبادلہ کے ذخائر 3.6ٹریلین امریکی ڈالر ہے ، یہ دنیا کا سب سے زیادہ 2.34ٹریلین مالیت کی اشیاء برآمد کرنیوالا اور 1.96ٹریلین امریکی ڈالر کی اشیاء درآمد کرنیوالا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے ، چین اپنے ساحلی شہروں کو اپنی اقتصادی ترقی کیلئے 1978ء سے اپنی کھلی پالیسی اور اصلاحات کیلئے اہم عنصر کے طورپر استعمال کررہا ہے ، اس سلسلے میں سابق وزیر اعظم زو رونگلی کی یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جس میں انہوں نے اپنی حکمت عملی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر بڑی طاقت کو ہر طرف سے سمندر تک رسائی حاصل ہے جس طرح کے امریکہ کو اپنے مغربی اور مشرقی ساحلوں کے ذریعے پوری دنیا تک رسائی مل سکتی ہے ، یہ قومی اقتصادی پیداوار اور ترقی کیلئے ضروری ہے ، اس لئے پاکستان بھی اپنے ساحلی شہروں کو ترقی دے کر اپنے لئے مواقع دریافت کرسکتا ہے اور اسے ساحلی شہروں میں درپیش مسائل اور چیلنجز کا مقابلہ کرسکتا ہے ، چینی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ساحلی شہروں کی ترقی قومی پالیسیوں ، اقتصادی ترقی اور بین الاقوامی معیشت پر اثر انداز ہوتی ہے کیونکہ کھلے سمندروں اور بحری تجارت کو فروغ دیکر یہ مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔

ممتاز ماہر معیشت صائمہ شفیق نے کہا کہ سی پیک منصوبہ چین کی امداد سے جاری ہے اور اس کیلئے آئندہ چھ برسولوں کے درمیان چین نے 45.6ارب امریکی ڈالر توانائی اور بنیادی ڈھانچہ کی ترقی کیلئے مخصوص کئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ چین دس ارب ڈالر قرض کے طورپر فراہم کرے گا ، جب کہ بقیہ رقم ایکسپورٹ کریڈٹ اور چینی بینکوں کی طرف سے دی گئی ناقا بل واپسی امدادی رقم ہے۔

انہوں نے کہا کہ کل مختص کی گئی رقم میں سے 33.7ارب ڈالر توانائی کے منصوبوں پر خرچ کئے جائیں گے جبکہ5.9 ارب ڈالر سڑکوں کی تعمیر 3.69ارب ڈالر ، ریلوے نیٹ ورک 1.6ارب ڈالر ، لاہور ماس ٹرانزٹ پروگرام 66ملین گوادر بندرگاہ کی ترقی اور چار ملین آپٹک منصوبے کیلئے استعمال کئے جائیں گے ۔مقررین نے کہا کہ ایسے وقت میں امریکہ ممالک کے درمیان دیوار یں تعمیر کرنے کی بات کررہا ہے ، چین کھلی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور وہ امریکہ کے مقابلے میں ملکوں کے ساتھ سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن کر سامنے آرہا ہے ، وہ ترقی پذیر ممالک کو عطیات دینے والا بھی سب سے بڑا ملک بن گیا ہے ۔

علاوہ ازیں خوشحالی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے چین سرمایہ کاری میں اضافے کی پالیسی کے ساتھ ساتھ وہ اشیاء کی کھپت میں اضافے کی حکمت عملی بھی اختیار کررہا ہے جو کہ پڑوسی ملک پاکستان کے لئے بڑے مواقع رکھتی ہے ، سی پیک کے اہداف اور مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کو دنیا کے ساتھ مقابلے میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے تا کہ وہ عالمی سطح پر منسلک ہو اسے بین الاقوامی مارکیٹوں تک رسائی حاصل ہو اسے ترقیاتی مہارت ، ٹیکنالوجی اور مالیاتی وسائل حاصل ہوں ، اگرچہ آج کل کی دنیا میں معاشی مقابلہ ترقی کی کلید ہے تاہم بد قسمتی سے اس میدان میں پاکستان کا نمبر بہت نیچے ہے ، اس وقت 140ملکوں میں پاکستان معاشی ترقی کے حوالے سے 128ویں پوزیشن پر ہے جبکہ بھارت 55ویں اور نیپال ،117ویں پوزیشن سنبھالے ہوئے ہے ،اس لئے ابتدائی سطح پر پاکستان کو اپنے یہ مقاصد حاصل کر نے کے لئے چین کے ساتھ اپنی تعلقات اور جغرافیائی حیثیت کو مزید مضبوط کرنا چاہئے تا کہ اس کی معاشی صورتحال بہتر ہو سکے۔

ممتاز دانشور خالد رحمان نے کہا کہ چین ایک بڑے تجارتی بلاک کی طرف پیشرفت کررہا ہے اور وہ افریقہ ، مشرق وسطیٰ ، مغربی ایشیاء ، وسط ایشیاء ، پاکستان ، چین اور روس کی منڈیوں تک پہنچ رہا ہے ، دیگر منصوبوں کے علاوہ سی پیک میں سڑکوں ، مواصلات کا بنیادی ڈھانچہ ، اقتصادی زون ، گوادر کی بندر گاہ اور توانائی کے منصوبے شامل ہیں ، ان تمام منصوبوں کیلئے سرمایہ کاری درکار ہے اور یہ سرمایہ کاری کرنے والوں کے لئے منافع کے مواقع فراہم کرتے ہیں ، دنیا سرمایہ کاری کے مواقع اور اقتصادی منافع حاصل کرنا چاہتی ہے اور چینی کمپنیاں مشاورت ، ملازمت ، چین ماہرین ، کارکن اور مشینری فراہم کررہی ہیں جس سے ان کے پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ کام کے زیاد ہ سے زیادہ مواقع روشن ہو رہے ہیں اور اس سے چین مغربی علاقہ کاشغر پاکستانی کمپنیوں کیلئے بھی کاروباری مرکز بنتا جارہا ہے ، چین کو گوادر سے سنکیانگ تک تیل اور دیگر اشیاء کی نقل و حمل کیلئے ایک مختصر فاصلے کا روٹ حاصل ہو گیا ہے ، جس سے اس کے نقل و حمل اور انشورنس کے اخراجات اور خاصی حد تک کم ہو گئے ہیں ، اس وقت چین کی ضررورت کا ساٹھ فیصد تیل بحری جہازوں کے ذریعے چین تک پہنچنے کے لئے دو سے تین مہینے کا وقت لیتا ہے جہاں اس وقت نقل و حرکت کیلئے کئی خطرات بھی موجود ہیں کیونکہ جنوبی بحیرہ چین کے مسئلے پر کشیدگی کے باعث چین کو ہر وقت خدشات کا سامنا رہتا ہے جبکہ سی پیک کے منصوبے کی تکمیل کے بعد گوادر سے چین تک تیل اور دیگر اشیاء کی منتقلی کیلئے صرف چار پانچ روز درکار ہوں گے ، علاوہ ازیں اس کثیر المقاصد اور طویل المیعاد منصوبے کی اہمیت صرف پاکستان اور چین کے لئے نہیں بلکہ اس سے علاقے کے اقتصادی ماحول بلکہ بین الاقوامی تجارت اور عالمی معیشت کو بھی بڑے فوائد حاصل ہوں گے ۔

ڈاکٹر اطہر مقصود احمد نے کہا کہ سی پیک کے ذریعے2020 ء تک پاکستانی معیشت میں 1.5سے دو فیصد تک ترقی کے امکانات ہیں جبکہ 2030ء تک مزید 1.0سے 1.5فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے جبکہ اس سے سالانہ 1.5سے 2.0ملین تک روز گار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور اس کے ساتھ لوگوں کی فی کس آمدنی اور حکومت کو حاصل ہونے والے محاصل میں بھی اضافہ ہو گا ۔