پاکستان مستقبل میں بھارت سے مثبت اور تعمیری تعلقات کے لیے پر امید ہے اور توقع کرتا ہے کہ دونوں ملکوں کے رہنما سنجیدگی اور پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موجودہ بحران سے نکلنے کی کوشش کریں گے۔ بغیر تحقیقات جلد بازی میں الزامات لگانا سود مند نہیں، پاکستان اپنی سرزمین بھارت سمیت دنیا کے کسی بھی حصے میں دہشت اور تشدد پھیلانے کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کے عزم پر قائم ہے۔ اڑی حملے کے بعد دونوں ملکوں میں فوج کی تیاریوں کے آثار دکھائی دیئے تاہم انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی جنگ ہونے جارہی ہے، مجھے اس بات پر کامل یقین ہے کہ پاکستان اور بھارت کو ہیجان انگیزی سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا، جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ دیگر کئی مسائل کی وجہ ہے۔ بھارت میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کا برطانوی جریدے سے انٹرویو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 26 ستمبر 2016 16:48

پاکستان مستقبل میں بھارت سے مثبت اور تعمیری تعلقات کے لیے پر امید ہے ..

نئی دہلی(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔26 ستمبر۔2016ء) بھارت میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کا کہنا ہے کہ پاکستان مستقبل میں بھارت سے مثبت اور تعمیری تعلقات کے لیے پر امید ہے اور توقع کرتا ہے کہ دونوں ملکوں کے رہنما سنجیدگی اور پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موجودہ بحران سے نکلنے کی کوشش کریں گے۔برطانوی جریدے کو دیئے گئے انٹرویو میں عبدالباسط نے کہا کہ جیسا کہ ہمارے وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں کہا کہ پاکستان اپنے اس عزم کا اعادہ کرتا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ معمول کے مطابق اور تعاون پر مبنی تعلقات چاہتا ہے اور تمام مسائل کو پر امن طریقے سے حل کرنے کا خواہاں ہے۔

عبدالباسط نے کہا کہ بھار ت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی اب بھی اڑی واقعے کی تحقیقات کررہی ہے تاکہ یہ پتہ لگایا جاسکے کہ حملہ کیسے ہوا جس میں 18 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ میری یہ تجویز ہے کہ بغیر تحقیقات جلد بازی میں الزامات لگانا سود مند نہیں، سب نے دیکھا کہ پٹھان کوٹ واقعے کے بعد ہم نے کس طرح تعاون کیا، چیزیں مثبت سمت کی جانب گامزن تھیں اور اگر وہی جذبہ برقرار رکھا جائے تو مجھے یقین ہے کہ صورتحال کو مزید خراب ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پٹھان کوٹ حملے کے بعد ٹوٹنے والے تعاون کے جذبے کو دوبارہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی ہائی کمشنر نے کہا کہ میں ایک سفارت کار ہوں اور چاہتا ہوں کہ سفارت کاری کی جیت ہو مجھے نہیں لگتا کہ دو طرفہ سفارت کاری خستگی کا شکار ہوچکی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین بھارت سمیت دنیا کے کسی بھی حصے میں دہشت اور تشدد پھیلانے کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کے عزم پر قائم ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے تعلقات درست سمت میں تھے، میں بہت پر امید تھا لیکن 8 جولائی حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت سے حالات یکسر بدل گئے اور یہی وہ موقع تھا جب تسلسل ٹوٹا۔انہوں نے کہا کہ اس تسلسل کو دوبارہ سے شروع کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے سفارت کاروں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔پاکستانی ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ دہلی میں رہ کر زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور مجھے یہاں کے لوگوں میں بھی امن اور باہمی سمجھوتے کی خواہش دکھائی دیتی ہے۔

عبدالباسط نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ا±ڑی حملے کے بعد دونوں ملکوں میں فوج کی تیاریوں کے آثار دکھائی دیئے تاہم انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی جنگ ہونے جارہی ہے، مجھے اس بات پر کامل یقین ہے کہ پاکستان اور بھارت کو ہیجان انگیزی سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا، جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ دیگر کئی مسائل کی وجہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میں سختی کے ساتھ اس بات پر زور دیتا ہوں کہ ہمارے جو بھی مسائل ہیں انہیں پر امن طریقے سے حل ہونا چاہیے۔

ہم کچھ عرصے تک ایک دوسرے سے بات نہ کرنے کے متحمل تو ہوسکتے ہیں لیکن ہمارے کئی باہمی ، علاقائی اور عالمی چیلنجز ایسے ہیں جو صرف مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہوسکتے ہیں’میں اس حوالے سے کوششیں جاری رکھوں گا اور ہمیں جنگ جنون کو غالب نہیں آنے دینا چاہیے۔عبدالباسط نے کہا کہ ایسے لوگ موجود ہیں جن کے مفادات پاک بھارت تعلقات ڈی ریل ہونے سے وابستہ ہیں ، اگر آپ پٹھان کوٹ یا اڑی واقعے کی بات کرتے ہیں تو میں یہ کہوں گا کہ دونوں ملک اس بات پر متفق ہیں کہ جو میکینزم ہم نے اپنائے ہوئے ہیں ان میں اس طرح کے واقعات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہر واقعے کے بعد ہم وہیں آجائیں جہاں سے سفر شروع کیا تھا تو پھر ان مکینزم کا کوئی فائدہ نہیں رہ جاتا۔ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کا مقصد یہی ہے کہ ان قوتوں کو موقع نہ دیا جائے جو یہ نہیں چاہتے کہ ہم باہمی تنازعات کو حل کرکے تعاون کے نئے دور میں داخل ہوسکیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ عمل قدم بہ قدم آگے بڑھانا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں جانب سے کوششیں کی جائیں۔

متعلقہ عنوان :