وزیر اعظم کا جنرل اسمبلی میں خطاب دوٹوک خطاب ہونا چاہئے تھا،خورشیدشاہ

خطاب میں دنیا کو یہ باور کرایا جاتا کہ پاکستان کو بھارت جیسے ہمسایہ ملک سے کیا خطرات اور مسائل در پیش ہیں کلبھوشن پاکستان میں بھارت کی بد ترین مداخلت کی علامت ہے، ہندوستان کا یہ چہرہ بھی دنیا کو دکھانا چاہئے تھا،بیان

جمعرات 22 ستمبر 2016 22:51

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔22ستمبر ۔2016ء) قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب عام تقریر کی بجائے ایک بھرپور اور دوٹوک خطاب ہونا چاہئے تھا جس میں دنیا کو یہ باور کرایا جاتا کہ پاکستان کو بھارت جیسے ہمسایہ ملک سے کیا خطرات اور مسائل در پیش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے کو بھرپور طریقے سے اجاگر کرنا خوش آئند ہے لیکن پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی میں ہندوستان کا ہاتھ ہے اور ہمیں یہ بات واضع اور واشگاف انداز میں دنیا کو بتانی چائیے تھی۔ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ کلبھوشن پاکستان میں بھارت کی بد ترین مداخلت کی علامت ہے اور ہمیں ہندوستان کا یہ چہرہ بھی دنیا کو دکھانا چاہئے تھا کہ بھارت کس طرح ہمارے ملک میں دہشت گردی اور بد امنی کو ہوا دے رہا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ وزیر اعظم جنرل اسمبلی جانے سے پہلے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیتے مگر شائد وزیر اعظم وزارت خارجہ کے مشیروں کو ہی عقل کل سمجھتے ہیں جن کی کارکردگی پوری قوم کے سامنے ہے اور اج ہم نہ صرف اچھی ہمسائیگی سے محروم ہیں بلکہ دنیا بھر میں بھی تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسے موقع پر کہ جب وزیر اعظم امریکہ میں ہیں امریکی کانگرس میں پاکستان کو دہشت گردی کی کفیل ریاست قرار دینے کا بل پیش کیاجا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے حکومت کو ایڈہاک ازم کی پالیسی ترک کر کے مستقل مزاجی اپنانا ہوگی تاکہ ہم خارجہ تعلقات میں تنہائی سے نکل کر عالمی برادری میں اپنا مقام بنا سکیں۔ انہوں نے کہا افسوس کی بات ہے کہ ہم ملک کی دو اہم وزارتیں وزارت خارجہ اور وزارت دفاع بھی ایڈہاک ازم کے تحت چلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی موجودہ حکومت کی مسلمان اور پاکستان دشمنی کوئی راز نہیں مگر ہندوستان ہمیں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے پر مجبور نہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں کہ جب بھارت ہمارے خلاف تشدد، دھونس اور بربریت پر اترا ہوا ہے تو حکومت کا فرض ہے کہ وہ ہندوستان کے جنگی جنون، پاکستان میں اس کی مداخلت اور دہشت گردی اور ہمارے بارڈرز پر ائے دن کی فائرنگ کے سدباب کیلئے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیکر کوئی فوری لائحہ عمل طے کرے۔انہوں نے کہا کہ پر امن ہمسائیگی ہماری خواہش اور ترجیح ہے لیکن یہ صرف اور صرف برابری کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔

انہوں نے کہ ہمارے معصوم شہریوں کے سینے میں گولیاں اتارنے والوں کو ہم بھی توپ کے دھانے پر رکھ سکتے ہیں لیکن ہم امن اور بات چیت کی پالیسی اپنا کر ایک ذمہ دار اور پر امن قوم کا کردار ادا کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان نے دنیا میں سیکولرازم کا ڈھونگ رچایا ہوا ہے اور ہم سب پر یہ فرض ہے کہ ہم بھارت کے اس ڈھونگ کا پردہ چاک کریں اور دنیا کو اس کا اصل چہرہ دکھائیں