کراچی اور نیویارک کے مسائل ایک جیسے ہیں اور ہم سب ملکر ان مسائل کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔امریکی قونصل جنرل

جمعرات 22 ستمبر 2016 22:31

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔22ستمبر ۔2016ء) کراچی میں تعینات امریکی قونصل جنرل گریس شیلٹن نے کہا کہ جامعہ کراچی آکر مجھے بیحد خوشی ہورہی ہے ،جامعہ کراچی کے شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن اور جارج میسن یونیورسٹی کے مابین یونیورسٹی پروگرام پارٹنر شپ پروگرام کے تحت مذکورہ اشتراک انتہائی لائق تحسین ہے اور یہ کانفرنس اسی اشتراک کی کامیابی کا منہ بولتاثبوت ہے۔

میں جامعہ کراچی اور جارج میسن یونیورسٹی کے تمام اسکالرز کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں جنہوں نے دونوں ممالک کے مابین پل کاکردار اداکرتے ہوئے مذکورہ کانفرنس کی کامیابی میں اہم کردار اداکیا۔پاکستان میں میرا جس گرم جوشی سے استقبال کیا گیا اس سے پاکستان اب میرے لئے دوسرے گھر کی مانند ہے۔

(جاری ہے)

پاکستانی عوام اور پاکستانی ثقافت قابل تعریف ہے ۔

کراچی اور نیویارک کے مسائل ایک جیسے ہیں اور ہم سب ملکر ان مسائل کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن اور امریکہ کی جارج میسن یونیورسٹی کے اشتراک سے ایچ ای جے آڈیٹوریم جامعہ کراچی میں منعقدہ تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس بعنوان: ”مینجنگ میگاسٹیز2016 ء“ کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر نے امریکی قونصل جنرل کو جامعہ کراچی میں خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ میں پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی اور جارج میسن یونیورسٹی کو مذکورہ کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر مبارکبا د پیش کرتاہوں۔جامعہ کراچی اور جارج میسن یونیورسٹی کے مابین مذکورہ اشتراک سے مثبت اور تعلیمی فوائد برآمد ہورہے ہیں اور مجھے امید ہے کہ سلسلہ جاری رہے گا۔

کانفرنس میں پیش کردہ تمام پالیسی سفارشات کو حکومتی حلقوں تک پہنچایا جائے گا تاکہ عوامی مسائل کو حل کیا جاسکے ۔جامعہ کراچی کے رئیس کلیہ نظمیات وانصرام پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی نے کہا کہ جامعہ کراچی اور جارج میسن یونیورسٹی کے مابین اشتراک کے موقع پر طے کئے گئے اہداف بڑی کامیابی سے پورے کئے جارہے ہیں اور مذکورہ کانفرنس کے انعقاد سے امریکہ اور پاکستان کے اسکالرز کو ایک ساتھ کام کرنے کا موقع ملاجو ایک اچھا تعلیمی تجربہ ثابت ہوا۔

جارج میسن یونیورسٹی کے فوکل پرسن ڈاکٹر جیمز ویٹی نے جامعہ کراچی بالخصوص پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی اور شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن کا شکریہ اداکرتے ہوئے مذکورہ کانفرنس کو ایک بڑی کامیابی قراردیا ۔انہوں نے کہا کہ مذکورہ کانفرنس سے جارج میسن یونیورسٹی کے اساتذہ اوراسکالرز کافی مستفید ہوئے ہیں۔اس موقع پر چیئر مین شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر شبیب الحسن نے شعبہ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے ریسرچ جرنل بعنوان: ”گلوبل جرنل فارمینجمنٹ اینڈ ایڈمنسٹریشن سائنسز “ کے اجراء کا اعلان کیا۔

جامعہ کراچی کے شعبہ جنرل ہسٹری پروفیسر ڈاکٹر معیز خان نے تعلیمی نظام پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بالخصوص کراچی میں کئی اقسام کے تعلیمی نظام رائج ہیں جس سے طلبہ کی تعلیمی صلاحیت نہ صرف متاثر ہورہی ہے بلکہ وہ احساس کمتری اور احساس برتری کا شکار بھی ہورہے ہیں ۔حکومت کو چاہیئے کہ وہ ایک ایسا تعلیمی نظام وضع کرے جس میں تمام تعلیمی نظاموں کے اچھے وصف شامل ہوں تاکہ ملک کے مستقبل کے معماروں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچایا جاسکے۔

جامعہ کراچی کے شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن کی فیکلٹی ممبرشمائلہ برنی نے اپنا مقالہ بعنوان: ”کراچی کے سرکاری اسپتالوں کی کارکردگی “ پیش کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے ساتویں بڑے شہر کراچی کا شعبہ صحت شدید زوال پذیر ہے ،کراچی کے سرکاری اسپتال کرپشن ،قابل ڈاکٹر ز ،ادویات اور صحت کی سہولیات کی کمی کا شکا رہیں۔کراچی کی 75% آبادی متوسط اور کم آمدنی والے طبقے پر مشتمل ہے جن کی ماہانہ آمدنی اوسطاً15 ہزارروپے تک ہے۔

المیہ یہ ہے کہ یہ 75% فیصد آبادی علاج معالجے کے لئے سرکاری اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں مگر سرکاری اسپتالوں کی حالت زار کے باعث صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم رہ جاتے ہیں۔مہنگے علاج معالجے کی سہولت کے باوجود کراچی کے نجی اسپتال شہر کے شعبہ صحت میں کلیدی حیثیت کے حامل ہیں جس کی بڑی وجہ سرکاری اسپتالوں میں صحت کی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کی ضروریات اور مالی استطاعت کو مدنظر رکھتے ہوئے سرکاری اسپتالوں علاج معالجے کی سہولیات کو بہتربنایا جائے۔جامعہ کراچی کے شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن کے ایم فل اسکالرعماد ظفر نے اپنا مقالہ بعنوان: ”یوتھ امیگریشن“ پیش کرتے ہوئے کہا کہ 2015 ء میں 10 لاکھ پاکستانیوں نے بیرون ملک ہجرت کرکے پاکستان کو خیرباد کہہ دیا ،ان افراد کی ایک بڑی تعداد کراچی میں مقیم تھی ۔

کراچی کی 30% فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جس کا 48.7% پاکستان سے ہجرت کرنے کا خواہش مند ہے جس کی بڑی وجوہات میں بیروزگاری،معاشی مسائل اور حکومتی سہولیات کا فقدان ہے۔گذشتہ چھ سالوں میں تارکین وطن کی تعداد 37 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔گیلپ سروے کے مطابق پاکستان کی دوتہائی آبادی پاکستان چھوڑنا چاہتی ہے ،پاکستانی تارکین وطن کی تعداد 70 لاکھ تک پہنچ چکی ہے جن میں 48% فیصد مشرق وسطیٰ ،28 فیصد یورپ،19 فیصد امریکہ اور05 فیصد دنیا کے دیگر ممالک رہائش پذیر ہیں۔

تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد سے شعبہ تعلیم اور صحت سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہنرمند افرادی قوت کا فقدان سامنے آرہاہے جو قابل تشویش ہے۔جامعہ کراچی کے شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن کے ایم فل اسکالرسلمان خطانی نے اپنا مقالہ بعنوان: ”کراچی میں سماجی ومعاشی ترقی“ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی آبادی تقریباً کروڑ تک جاپہنچی ہے جس کا 30% فیصد 15 تا29 سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔

کراچی میں نوجوانوں کی تعداد 70 لاکھ تک پہنچ چکی ہے جو کراچی اور ملک کی معاشی ترقی میں اہم کرداراداکرسکتی ہے۔المیہ یہ ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت کراچی کے مستقبل سے ناامید نظر آتی ہے اور 30% نوجوان کراچی چھوڑ کر دیگر ممالک میں جانے کو تیار ہے ۔حکومت کوچاہیئے کہ نوجوانوں کی فلاح وبہبود اور روزگار کے لئے بہترین مواقع پیداکریں ۔

متعلقہ عنوان :