سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیز و انسانی وسائل کی ترقی کا اجلاس

اوور سیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن ،بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مختص ،استعمال بجٹ ،ادارے کی کارکردگی میں بہتری کیلئے قانون سازی کی تجاویز ودیگر معاملات کا جائزہ لیا گیا کمیٹی کی ورکر ویلفیئر بورڈ خیبر پختونخوا کے سٹاف کو 29 ستمبر تک تنخواہ ادا کرنے کی ہدایت کر دی

جمعرات 22 ستمبر 2016 20:38

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔22ستمبر ۔2016ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیز و انسانی وسائل کی ترقی نے ورکر ویلفیئر بورڈ خیبر پختونخوا کے سٹاف کو 29 ستمبر تک تنخواہ ادا کرنے کی ہدایت کر دی ۔ قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر باز محمد خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوا قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اوور سیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن اور بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مختص اور استعمال بجٹ کے علاوہ ادارے کی کارکردگی میں بہتری کیلئے قانون سازی کی تجاویز ، ورکز ویلفیئر بورڈ شہباز عظمت خیل بنوں خیبر پختونخوا اور ژوب بلوچستان میں سکولوں کی تعمیر کے معاملات کے علاوہ ورکر ویلفیئر بورڈ خیبر پختونخوا میں غیر قانونی تقرریوں کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کے اجلا س میں سینیٹرز سید الحسن مندوخیل ، مس نجمہ حمید، لیفٹنٹ جنرل (ر) عبدالقیوم ، رحمان ملک،حاجی سیف اﷲ خان بنگش، نگہت مرزا، اور شاہی سید کے علاوہ وفاقی وزیر سمندر پار پاکستانیز پیرسید صدرالدین شاہ راشدی ، ایم ڈی اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن ، سیکرٹری لیبر کے پی کے ، سیکرٹری ورکر ویلفیئر فنڈ ، سیکرٹری ورکر ویلفیئر بلوچستان کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

ایم ڈی او ای سی نے قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا کہ اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپویشن 1976 میں قائم ہوئی اور اب تک 40 سالوں میں ایک لاکھ چالیس ہزار ورکرز کو بیرون ملک بجھوایا اس کے چار علاقائی دفاتر ہیں ادارے کا مقصد پاکستانی ورکرز کو بیرون ممالک بہتر کام کے مواقع میں مدددینا ہے ۔انہوں نے کہاکہ بیرون ممالک جانے والے لوگوں کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا جس کے پیش نظر حکومت نے یہ ادارہ قائم کیا یہ ادارہ حکومت سے کوئی بجٹ نہیں لیتا اپنی آمدن کے حساب سے اخراجات کرتا ہے آمدن کے ذرائع میں او ای سی سروسز چارجز ، ٹریول ایجنسیوں کی آمدن ، سرمایہ کاری کا منافع ، کورین زبان میں ٹریننگ ، درخواستوں کی فیس وغیرہ شامل ہیں انہوں نے کہا کہ کوریا میں ایک لاکھ ورکرز کام کر رہے ہیں جس پر سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ ادارہ ورکر سے 40 ہزار اور 65 ہزار کے حساب سے چارج کرتا ہے جو کہ امیگریشن قوانین 1979 کے خلاف ہے اس کا تفصیلی جائزہ لے کر آئندہ اجلاس قانونی حیثیت بارے آگاہ کیا جائے اور سکل ورکرز کی تعداد بڑھانے کیلئے حکومت زیادہ سے زیادہ اقدامات اٹھائے جو بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوں تاکہ زرمبادلہ میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکے ۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ صوبوں کا معاملہ ہے ہم صرف گائیڈ لائن فراہم کر سکتے ہیں ۔سینیٹر لیفینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہاکہ کارپوریشن ورکرز سے جتنی فیس وصول کرتی ہے اس کے بہتر نتائج سامنے آنے چاہیے اور پورے ملک سے سکل ورکرز کو تلاش کیا جائے ۔چیئرمین کمیٹی نے ادارے کے آڈٹ اور طریقہ کار بارے اور بہتری کیلئے منصوبہ بندی بارے پوچھا تو بتایا گیا کہ ادارے کی مارکیٹنگ کیلئے زیادہ خرچ نہیں کیا جا سکا جس کی وجہ سے ورکرز کی تعداد زیادہ بڑھائی نہیں جا سکی پرائیوٹ سیکٹر کے پاس وسائل زیادہ ہوتے ہیں اور ادارے کا کمرشل آڈٹ بھی ہوتا ہے قائمہ کمیٹی کو یہ بھی بتایاگیاکہ وزیراعظم پاکستان نے قطر کا دورہ کیا تو ایک لاکھ ورکرز کے ویزے حاصل کیے گئے جس پر اراکین کمیٹی نے تنخواہوں اور دیگر سہولیات بارے دریافت کیا تو بتایاگیا کہ فلپائن کے لوگ ساڑھے چارسو ریال پر کام کر رہے ہیں ہماری کوشش ہو گئی کہ ایک ہزار ریال پر کم از کم ضرور ہوں ۔

سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ پاکستان میں کم سے کم تنخواہیں اور آئی ایل او کی تجاویز کو ذہین میں رکھ کر فیصلہ کیا جائے ۔ اراکین کمیٹی نے نرسوں کو معیاری تربیت فراہم کرنے کی بھی ہدایت کر دی تاکہ بیرون ملک جا کر ملک کیلئے فائدہ مند ثابت ہو سکیں وفاقی وزیر نے کہا کہ او ای سی کو کارکردگی بہتری کرنے کیلئے ایک سال کی مہلت دی ہے کمیٹی کے اجلاس میں بیورو آف امیگریشن اینڈ ااوورسیز ایمپلائمنٹ کے ڈی جی نے بتایا کہ ادارے کا ایک ہیڈ آفس اور سات پروٹیکٹر آفسز ہیں ادارے کا بجٹ 178 ملین روپے مختص کیا گیا تھا اور 19 ستمبر تک 23 ملین تنخواہوں کی مد میں خرچ ہو چکا ہے ادارے کا 75 فیصدبجٹ تنخواہوں کی مد میں خرچ ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ باہر جانے والے افرا د پہلے تین جگہوں پر پیسے جمع کراتے تھے این بی پی سے بات ہو رہی ہے اور اب پیسے ایک جگہ پر جمع کرانے پڑیں گے ۔

اراکین کمیٹی نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں صرف ایک ایک پروٹیکٹر آفس پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ان علاقوں کے لوگ بہت جفاء کش ہیں انہوں نے اوورسیز پرموٹرز اور پروٹیکٹر کے خلاف شکایات پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور آئندہ اجلاس میں ان کے خلاف اٹھائے گئے ایکشن کی تفصیلات بھی طلب کر لیں ۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ سیالکوٹ اور اسلام آباد میں پروٹیکٹر آفس قائم کرنے پر کام ہو رہا ہے اراکین نے گلگت بلتستان اور گوادر میں بھی قائم کرنے کی سفارش کر دی ۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ورکرز ویلفیئر بورڈ شہباز عظمت خیل بنوں خیبر پختونخوا او ژوب بلوچستان میں سکولوں کی تعمیر کے پی سی ون 29 ستمبر کو ہونے والی گورننگ باڈی کے اجلاس میں پیش کیے جائیں گے قائمہ کمیٹی نے معاملات حل کرنے کی ہدایت کر دی سیکرٹری ورکر ویلفیئربورڈ بلوچستان نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ منصوبہ 2013 میں شروع ہوا ورکرز کیلئے ہائی سکول کا پی سی ون 2015 میں جمع کرایا ورکر فنڈ کی باڈی معطل تھی اس لئے تاخیر ہوئی ورکرز ہائی سکول کیلئے پانچ ایکٹر اور گرلز ہائی سکول کیلئے 12 ایکٹر زمین حاصل کر لئی گئی ہے سیکرٹری ورکرز ویلفیئر فنڈ ہاشم خان نے کہا کہ ٹیکنکل کمیٹی نے کچھ اعتراضات اٹھائے تھے ان کے جواب یہ فراہم کر دیں گے ٹیکنکل کمیٹی میں نیسپاک اور پی ڈبلیو ڈی کے لو گ شامل ہوتے ہیں قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا 38 سو سٹاف میں سے 24 سو لوگوں کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا تھا جن میں زیادہ تر لوگوں پر جعلی ہونے کا شک ہے بہت سا ریکارڈ جلا دیا گیا ہے اور موجود ریکارڈ کے مطابق 663 لوگ بھرتی کیے گئے ہیں بقیہ 1774 لوگوں کی تصدیق کے بعد فیصلہ کیا جائے گا جس پر چیئرمین و اراکین کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے تنخواہوں کی ادائیگی کے حوالے سے واضح احکامات دے تھے مگر قائمہ کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد نہیں کرایا جاتا جس پر اراکین کمیٹی نے واک آؤٹ بھی کیا ۔

چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ جو لوگ بلیک لسٹ ہے ان کو چھوڑ کر باقی لوگوں کو تنخواہیں ادا کی جائیں ۔

متعلقہ عنوان :