جونا گڑھ قانونی طور پر پاکستان کا حصہ ہے ،بھارت نے غیر قانونی قبضہ جما رکھا ہے ،مسئلہ کو مسئلہ کشمیر کی طرح بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا جانا چاہیے ، مقررین

بین الاقوامی قوانین کے مطابق پاکستان مسئلہ جونا گڑھ کا دفاع کر سکتا ہے ،جب تک الحاق کا قانون زندہ ہے مسئلہ بھی زندہ ہے ،جونا گڑھ پر بھارتی افواج کا قبضہ اکیسویں صدی میں نو آبادیات کی ایک مثال ہے، خطاب

جمعرات 22 ستمبر 2016 19:38

جونا گڑھ قانونی طور پر پاکستان کا حصہ ہے ،بھارت نے غیر قانونی قبضہ جما ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔22ستمبر ۔2016ء) جونا گڑھ قانونی طور پر پاکستان کا حصہ ہے جس پر بھارت نے غیر قانونی قبضہ جما رکھا ہے اس مسئلہ کو مسئلہ کشمیر کی طرح بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا جانا چاہیے ۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق پاکستان مسئلہ جونا گڑھ کا دفاع کر سکتا ہے اور جب تک الحاق کا قانون زندہ ہے جونا گڑھ کا مسئلہ بھی زندہ ہے ۔

تقسیم ہند سے قبل اگست 1947میں نواب آف جونا گڑھ نواب مہابت خانجی نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر لیا تھا نواب مہابت خانجی اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے مابین الحاقی دستاویز پردستخط ہوئے تھے اور ستمبر 1947سے نومبر1947 تک جونا گڑھ پاکستان کا حصہ رہا۔جونا گڑھ پر بھارتی افواج کا قبضہ اکیسویں صدی میں نو آبادیات کی ایک مثال ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار مسلم انسٹیٹیوٹ کے جانب سے منعقدہ گول میز مذاکرہ بعنوان "جونا گڑ ھ الحاق پاکستان ایک تجزیہ " سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کیا۔

مقررین میں نواب آف جونا گڑھ نواب محمد جہانگیر خانجی، چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ احمد علی،معروف قانون دان و سابق وقافی وزیر احمر بلال صوفی، مسلم لیگ ن کے رہنما سید ظفر علی شاہ ، ایسوسی ا یٹ پروفیسر قائد اعظم یونیورسٹی ڈاکٹرنذیر احمد، ایسوسی ایٹ ڈین سی پی سی ایس ،نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر طغرل یامین ، پاکستان کے سابق سفیر اشتیاق آصف اندرابی اور عامر انور شادانی شامل تھے۔

ڈسکشن کا انعقاد جوناگڑھ کے یومِ الحاقِ پاکستان کی نسبت سے کیا گیا تھا ریاست جوناگڑھ برصغیر کی562ریاستوں میں سے معاشی طور پر پانچویں بڑی ریاست تھی جس نے 15 ستمبر 1947 کو پاکستان میں شمولیت ختیار کی مقررین نے مزید کہا کہ الحاق کے بعد نواب مہابت خانجی قائداعظمؒ کے ساتھ ریاستی امور طے کرنے کیلئے پاکستان میں موجود تھے جب بھارتی افواج نے ریاست پر چڑھائی کرکے قبضہ کر لیا۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بھی جونا گڑھ پالیسی پر یوٹرن لیا۔ جوناگڑھ، مقبوضہ جموں و کشمیر اور حیدرآباد دکن پر بھارتی تسلط، بھارتی توسیع پسندانہ عزائم کو بے نقاب کرتا ہے اور بھارتی وزیراعظم کے سانحہ 1971 میں کردار کو تسلیم یہ بھی واضح کرتا ہے کہ بھارت نے کبھی پاکستان کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کیا- پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اﷲ خان نے قائد اعظم محمدعلی جناحؒ کی ہدایت پر جونا گڑھ کا کیس اقوام متحدہ میں پیش کیا تھا۔

جونا گڑھ کا کیس آج بھی مسلمانوں کے باقی مسائل کی طرح اقوام متحدہ میں شنوائی کا منتظر ہے۔ نواب آف جونا گڑھ اور پاکستان انصاف کے منتظر ہیں۔ جوناگڑھ پر بھارت کے غیر قانونی تسلط کے خلاف پاکستان کو عالمی برادری ، اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانا ہو گا۔ عالمی سطح پر نواب آف جوناگڑھ منفرد حیثیت کے حامل ہیں کہ وہ اپنی ریاست تو کھو چکے لیکن ان کی قانونی حیثیت بحیثیت نواب ابھی بھی موجود ہیں۔

پاکستان کا دارالخلافہ کراچی سے اسلام آباد منتقل ہونے کے باعث جونا گڑھ کا مسئلہ دب گیا جس کی وجہ سے یہ مسئلہ ملکی علاقائی اورعالمی منظر نامے سے تقریباً غائب ہو گیا اور اب بدقسمتی سے یہ مسئلہ کتابوں سے بھی ناپید ہو رہا ہے نوجوان نسل کو اس مسئلہ سے ٓگاہ کر نے کے لئے حکومت پاکستان کو اقدامات اٹھانے چاہئیں ۔ جونا گڑھ اور کشمیر دو الگ الگ مسئلے ہیں دونوں کو اہمیت دی جانی چاہیے اور حکومت پاکستان جونا گڑھ کے مسئلے کو کو زندہ رکھنے کے لئے اسلام آباد میں ایک علامتی عمارت تعمیر کرے اور ایک پارلیمانی کمیٹی بھی بنائے جو اقوام عالم کو جونا گڑھ کے مسئلے سے روشناس کرائے-۔

مقررین نے زور دیا کہ جونا گڑھ کو ہماری پالیسی اور تعلیمی نصاب میں شامل ہونا چاہیئے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی جونا گڑھ کے ساتھ وابستگی ہم سے یہ تقاضاکرتی ہے کہ ہم جونا گڑھ کے مسئلے کو ہر سطح ہر فورم پر زندہ رکھیں اس کے لیے ہمیں سو شل میڈیا، یونیورسٹیز، تھنک ٹینکس وغیرہ میں مسلسل آواز بلند کرنی ہو گی تاکہ مسئلہ جونا گڑھ کے حل اور انصاف کے لیے یہ ازسرنو زندہ ہو سکے اوریہ سانحہ تاریخ کے گم شدہ اوراق میں دفن نہ ہو بلکہ زندہ ہو کر اقوام عالم کے سامنے آ سکے۔مذاکرے میں مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔