قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کاآڈیٹر جنرل کو ایف ڈبلیو او کا آڈٹ کرنے کا حکم

جمعرات 22 ستمبر 2016 15:13

اسلام آباد ۔ 22 ستمبر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔22 ستمبر۔2016ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں آڈیٹر جنرل رانا اسد امین نے انکشاف کیا ہے کہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن آڈٹ کرانے سے گریزاں ہے‘ اس سلسلے میں ہم نے متعلقہ عسکری اداروں سے بھی رجوع کیا ہے۔ جب تک اس ادارے کا آڈٹ نہیں ہوتا‘ ان سے متعلقہ آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لینا بے سود ہوگا۔

پی اے سی نے آڈیٹر جنرل کو حکم دیا ہے کہ ایف ڈبلیو او کا آڈٹ کیا جائے‘ اس سلسلے میں ان کا جو بھی جواب ہو اس سے پی اے سی کو آگاہ کیا جائے۔ جمعرات کو اجلاس پی اے سی کے سینئر رکن سردار عاشق حسین گوپانگ کی زیر صدارت ہوا جس میں کمیٹی کے ارکان پرویز ملک‘ ارشد خان لغاری‘ رانا افضال حسین‘ صاحبزادہ نذیر سلطان‘ محمود خان اچکزئی‘ جنید انوار اور ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کے علاوہ متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

فاٹا سیکریٹریٹ اور وزارت ہاؤسنگ و تعمیرات کے 2012-13ء اور 2013-14ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ فاٹا کے فنڈز کی بروقت فراہمی کے معاملے کا جائزہ لیتے ہوئے پی اے سی نے ہدایت کی کہ مالیاتی ڈسپلن ہر صورت یقینی بنایا جائے۔ سردار عاشق حسین گوپانگ نے کہا کہ جو قومیں مالیاتی نظم و نسق پر توجہ نہیں دیتیں وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتیں۔ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے کہا کہ فاٹا محروم علاقہ ہے‘ اس کے فنڈز کے اجراء میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔

سیکریٹری فاٹا سیکریٹریٹ نے کہا کہ فاٹا کے فنڈز کے اجراء میں اہم ایک دن کی بھی تاخیر نہیں کرتے۔ ایک آڈٹ اعتراض کے جائزہ کے دوران آڈیٹر جنرل رانا اسد امین نے کہا کہ ایف ڈبلیو او کے آڈٹ کے حوالے سے پی اے سی حکم دے۔ وہ آڈٹ کرانے سے گریزاں ہیں۔ اس حوالے سے ہم نے وزارت دفاع سے بھی رجوع کیا ہے۔ پی اے سی کے استفسار پر رانا اسد امین نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 170(2) کے تحت ہر سرکاری ادارہ آڈٹ کرانے کا پابند ہے۔

پی اے سی نے ہدایت کی کہ ایف ڈبلیو او کا آڈٹ کیا جائے۔ پی اے سی سیکریٹریٹ ایف ڈبلیو او کو خط لکھے اور جو ان کا ردعمل سامنے آئے اس سے بھی ہمیں آگاہ کیا جائے۔ آڈیٹر جنرل رانا اسد امین نے کہا کہ ہمیں نظام ٹھیک کرنا چاہئے‘ اس کے لئے ہمیں فیصلے کرنے ہوں گے۔ پرویز ملک نے کہا کہ اس حوالے سے ہمیں کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے۔ پی اے سی کے چیئرمین نے کہا کہ شفافیت اس وقت تک نہیں آ سکتی جب تک کھلے مقابلے کی فضاء نہیں ہوگی۔

آڈیٹر جنرل نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی کام مقامی ٹھیکیداروں سے کرائے جا رہے ہیں۔ شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ ایف ڈبلیو او کو کام دینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ معیاری کام کیا جا سکے۔ ایک اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ دیگر ٹھیکیداروں سے کام میں کمیشن مافیا حاوی ہوتا ہے۔ ایف ڈبلیو او والے کمیشن نہیں دیتے۔ رانا اسد امین نے کہا کہ جب تک آڈٹ نہیں ہوگا ہم کچھ نہیں کر سکتے۔

جی ایچ کیو اور دیگر عسکری ادارے اگر آڈٹ کراتے ہیں تو ایف ڈبلیو او کا بھی آڈٹ ہونا چاہئے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ جو ادارہ بھی سرکاری فنڈز کا ایک پیسہ بھی خرچ کرتا ہے اس کا آڈٹ ہونا چاہئے۔ پی اے سی نے 2011-12ء میں ضلع ٹانک میں 4 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے 10 منصوبوں میں ایف ڈبلیو او کو 79 لاکھ کی زائد ادائیگی کے حوالے سے آڈٹ اعتراضات کے جائزہ کے دوران ہدایت کی کہ زائد ادائیگی کی ریکوری کی جائے۔

آڈیٹر جنرل رانا اسد امین نے کہا کہ جس طرح عام ٹھیکیدار کے ساتھ سختی کی جاتی ہے‘ ایف ڈبلیو او کے ساتھ بھی وہی برتاؤ کیا جائے۔ وزارت ہاؤسنگ و تعمیرات کے 2012-13ء اور 2013-14ء کے آڈٹ اعتراضات کے جائزہ کے دوران پی اے سی نے بیشتر آڈٹ اعتراضات کے جائزہ کے دوران پی اے سی نے بیشتر آڈٹ اعتراضات محکمانہ آڈٹ کمیٹی کی سفارشات پر نمٹا دیئے۔ وزارت ہاؤسنگ و تعمیرات کی 2013-14ء کی آڈٹ رپورٹ کا جائزہ لیتے ہوئے پی اے سی کو بتایا گیا کہ 16 ارب سے زائد کی ریکوری ہو چکی ہے۔

شفقت محمود نے کہا کہ پی اے سی میں اکثر یہ موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ فلاں کیس نیب میں ہے اور فلاں کیس عدالت میں ہے۔ پی اے سی کو اس حوالے سے صورتحال کا جائزہ لینا چاہئے۔ پی اے سی کے قائم مقام چیئرمین نے ہدایت کی کہ جو مقدمات عدالتوں یا نیب کے پاس ہیں‘ انہیں الگ کیا جائے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ 58 کیسز میں 100 ارب روپے کا معاملہ ہے۔ عدالتوں کو ٹائم فریم کے اندر فیصلہ کرنا چاہئے ورنہ چوری کا راستہ بند نہیں ہوگا۔

متعلقہ عنوان :