گھانا میں گاندھی کے مجسمے کے خلاف مہم، ہزاروں افرادکی حمایت

جمعرات 22 ستمبر 2016 13:27

گھانا میں گاندھی کے مجسمے کے خلاف مہم، ہزاروں افرادکی حمایت

آکرا(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔22 ستمبر۔2016ء) گھانا میں گاندھی کے نصب کیے گئے مجسمے کے خلاف مہم شروع کردگئی ہے جس کی ہزاروں افرادنے حمایت کی ہے جبکہ ماہرین تعلیم نے کہاہے کہ گاندھی جی نے گرچہ عدم تشدد کے فلسفے پر عمل پیرا ہوکر بھارت میں آزادی کی مہم چلائی تھی اور کامیابی حاصل کی لیکن نسل پرستی بھی ان کی شناخت تھی،میڈیارپورٹس کے مطابق گھانا میں یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے موہن داس کرمچندگاندھی کے خلاف ایک آن لائن مہم شروع کی ہے جس کی ایک ہزار سے زیادہ افراد نے حمایت کی ہے۔

اس میں آکرا میں یونیورسٹی کیمپس میں نصب گاندھی کے ایک مجسمے کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔س آن لائن عرضی میں گاندھی جی کی بعض تحریروں سے ایسے اقتباسات کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں انھوں نے افریقی نسل کے لوگوں کو بیان کرنے کے لیے وحشی یا پھر مقامی افریقی اور کافر‘ جیسے الفاظ سے کا استعمال کیا ہے۔

(جاری ہے)

اس میں گاندھی کے اس خط کی بھی مثال دی گئی ہے جو انھوں نے سنہ 1893 میں اس وقت کی جنوبی افریقہ کی پارلیمان کو لکھا تھا۔

اس میں گاندھی نے لکھا تھا کہ ’ کالونی میں اب یہ عام خیال غالب ہوتا نظر آتا ہے کہ وحشیوں یا پھر مقامی افریقی لوگوں کے مقابلے میں انڈین تھوڑا بہتر ہوتے ہیں۔یہ تمام حوالے گاندھی کے متعلق آن لائن پورٹل ’گاندھی سرو‘ سے لیے گئے ہیں جس نے گاندھی کے کام کو یکجا کیا ہے۔گاندھی کے مجسمے کو انڈیا نے گھانا کو بطور تحفہ پیش کیا تھا اور گذشتہ جون میں جب بھارتی صدر پرنب مکھرجی نے اکارا کا دورہ کیا تو اس کی نقاب کشائی کی گئی تھی،اس حوالے سے گاندھی کے متعلق جو آن لائن مہم چل رہی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ’ایک مورخ اس بات کی وضاحت کیسے کرے کہ سیاہ فام نسل کے لوگوں کے تئیں گاندھی کا رویہ بے رحمانہ تھا اور پھر انھیں کی تعظیم کے لیے اپنے ہی کیمپس میں نصب ان کا مجسمہ بھی دیکھے؟‘

متعلقہ عنوان :