1992سے2016تک سندھ کو 6 اور پنجاب کو 9فیصد اپنے حصے کا کم پانی ملا ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو اپنے حصے سے زیادہ پانی ملا، سیپکو کے بعض علاقوں میں ایک ٹرانسفر پر 10سے 15 لوگ بل ادا کرتے ہیں 4 ،4 سوکنڈے لگے ہوئے ہیں ،بجلی چوری میں محکمہ کے بعض ملازمین ملوث پائے گئے ہیں، 1ہزار کنڈے پکڑے ،بجلی چوروں یا اس میں ملوث ملازمین کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو علاقے کی بااثر سیاسی شخصیات کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کو چیف ایگزیکٹو سیپکو اور چیئرمین ارسا کی بریفنگ ہائیڈل، کوئلہ اور گیس کے مجموعی طور پر 26منصوبوں پر کام جاری ہے ،ا ن سے 13882میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی، شاہ جہان مرزا

بدھ 21 ستمبر 2016 20:18

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔21ستمبر ۔2016ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کو بریفنگ دیتے ہوئے انڈس ریورسسٹم اتھارٹی(ارسا)کے چیئرمین راؤارشدخان نے کہاکہ 1992سے2016تک کے مجموعی جائزے کے مطابق سندھ کو 6 اور پنجاب کو 9فیصد اپنے حصے کا کم پانی ملا ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو اپنے حصے سے زیادہ پانی ملا۔

چیف ایگزیکٹو سیپکو نے کہا کہ سیپکو کے بعض علاقوں میں ایک ٹرانسفر پر 10سے 15 لوگ بل ادا کرتے ہیں جبکہ 400،400کنڈے لگے ہوئے ہیں۔بجلی چوری میں محکمہ کے بعض ملازمین ملوث پائے گئے ہیں، 17ہزار کنڈے پکڑے اور ان کو پیشکش کی کہ وہ بجلی کے میٹرز لگوائیں مگر ان میں سے صرف 400لوگوں نے ہم سے میٹر لگوانے کیلئے رابطہ کیا،بجلی چوروں یا اس میں ملوث ملازمین کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو علاقے کی بااثر سیاسی شخصیات کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

(جاری ہے)

واپڈا حکام نے کمیٹی کو بتایاکہ نیلم جہلم ہائیڈرل پراجیکٹ پر 85فیصدکام مکمل ہوچکا ،جولائی 2017تک پہلا یونٹ چلانے کی ٹائم لائن پر کام مکمل کرنا کافی مشکل ہے ۔پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر کے چیئرمین شاہ جہان مرزا نے کمیٹی کو پرائیویٹ سیکٹر میں جاری توانائی کے منصوبوں پربریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ہائیڈل، کوئلہ اور گیس کے مجموعی طور پر 26منصوبوں پر کام جاری ہے جن سے 13882میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔

بدھ کو کمیٹی کا اجلاس چیئرمین محمد ارشد خان لغاری کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤ س میں ہوا،اجلاس میں کمیٹی ممبران کے علاوہ وزرات پانی و بجلی کے ایڈیشنل سیکرٹری عمر رسول،سیپکو اور ہیسکو کے چیف ایگزیکٹو،واپڈا حکام ،انڈس ریورسسٹم اتھارٹی(ارسا)کے چیئرمین راؤارشدخان ودیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے چیف ایگزیکٹو سیپکو نے کہا کہ سیپکو کے بعض علاقوں میں ایک ٹرانسفر پر دس سے پندرہ لوگ بل ادا کرتے ہیں جبکہ چار،چار سو کنڈے لگے ہوئے ہیں۔

بجلی چوری میں محکمہ کے بعض ملازمین ملوث پائے گئے ہیں۔ایسے علاقوں میں اگر ٹرانسفارمر جل جائے تو ہم اسے تبدیل نہیں کرتے۔انہوں نے کہا کہ اس سے قبل علاقے کے ارکان قومی اسمبلی نے فون کرکے ٹرانسفارمر لگوائے اور متعلقہ علاقوں میں ریکوری بہتر کرانے کی یقین دہانی کرائی مگر تاحال ریکوری بہتر نہیں ہوئی۔انہوں نے کہاکہ بجلی چوری کی روک تھام کی مہم کے دوران ہم نے 17ہزار کنڈے پکڑے اور ان کو پیشکش کی کہ وہ بجلی کے میٹرز لگوائیں مگر ان میں سے صرف 400لوگوں نے ہم سے میٹر لگوانے کیلئے رابطہ کیا۔

انہوں نے کہاکہ ہم جب بجلی چوروں یا اس میں ملوث ملازمین کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو علاقے کی بااثر سیاسی شخصیات کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے باوجود ہم نے 2ایس ڈی اوکے خلاف مقدمہ درج کرکے ان کے کیسز نیب کو بھجوائے ہیں،اس کے علاوہ بجلی چوری میں ملوث 4ایکسیئن بھی معطل کیے ہیں۔سیپکو میں کل 7لاکھ بجلی صارفین تھے جو وقت گزرنے کے ساتھ بڑھنے کے بجائے کم ہوکر ساڑھے5لاکھ رہ گئے ہیں ان میں سے بھی 3لاکھ75لاکھ صارفین ڈیفالٹر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جون 2016میں پرائیویٹ ریکوری بڑھ کر 70فیصد ہوگئی ہے۔اس موقع پر کمیٹی نے سیپکو چیف ایگزیکٹو کی کارکردگی کو سراہا۔ایڈیشنل سیکرٹری پانی و بجلی عمر رسول نے کمیٹی کو موبائل میٹر ریڈنگ کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ موبائل میٹر ریڈنگ کے نفاذ میں بڑی رکاوٹ میٹر ریڈر تھے جس پر ہم نے سخت ایکشن لیتے ہوئے میٹر ریڈرز کو نوکری سے نکالا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لیسکو میں 88فیصد،فیسکو،میپکو اور آئیسکو میں موبائل میٹر ریڈنگ کا 90فیصد کام مکمل ہوچکا ہے،دسمبر 2016تک پورے ملک میں موبائل میٹر ریڈنگ کا کام مکمل ہوجائے گا،موبائل میٹر ریڈنگ سے اووربلنگ کی شکایات 70سے 80فیصد تک کم ہوجائیں گی۔کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے انڈس ریورسسٹم اتھارٹی(ارسا)کے چیئرمین راؤارشدخان نے کہاکہ 1992سے 2016تک صوبوں کو دیئے جانے والے پانی کے مکمل اعدادا و شمار ہمارے پاس ہیں،1992سے2016تک کے مجموعی جائزے کے مطابق سندھ کو 6 اور پنجاب کو 9فیصد اپنے حصے کا کم پانی ملا جبکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو اپنے حصے سے زیادہ پانی ملا۔

انہوں نے کہا کہ رواں سال بارشوں کی وجہ سے 15فیصد زیادہ پانی دستیاب تھا ،اسلئے تمام صوبوں کو ان کی طلب سے زیادہ پانی دیا گیا ،صوبوں کی جانب سے کم پانی ملنے کی شکایات درست نہیں ہیں۔واپڈا حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ نیلم جہلم ہائیڈرل پراجیکٹ پر 85فیصدکام مکمل ہوچکا ہے،جولائی 2017تک پہلا یونٹ چلانے کی ٹائم لائن پر مکمل کرنا کافی مشکل ہے مگر ہم پرامید ہیں کہ ہم مقررہ وقت تک اسے مکمل کرلیں گے، منصوبے سے 969میگاواٹ بجلی حاصل ہو گی۔

تربیلا ایکسٹینشن منصوبے پر 69فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اور منصوبہ جون2017تک مکمل ہو جائے گا اور منصوبے سے 1410 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی ۔ گولن ہائیڈل پاور پروجیکٹ پر 52فیصد کام ہو چکا ہے اور اگست2017تک یہ منصوبہ بھی مکمل ہو جائے گا، منصوبے سے 108میگاواٹ بجلی حاصل ہو گی۔ اس موقع پر وزارت پانی وبجلی کے ایڈیشنل سیکرٹری عمر رسول نے انکشاف کیا کہ واپڈا کے سابق چیئرمین ظفرمحمود کو نیلم جہلم ہائیڈروپاورپراجیکٹ کی ٹائم لائن کے حساب سے کام مکمل نہ کرنے کی وجہ سے فارغ کیا گیا۔

پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر کے چیئرمین شاہ جہان مرزا نے کمیٹی کو پرائیویٹ سیکٹر میں جاری توانائی کے منصوبوں پربریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ہائیڈل، کوئلہ اور گیس کے مجموعی طور پر 26منصوبوں پر کام جاری ہے جن سے 13882میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی اس میں ہائیڈل کے 16منصوبوں سے6339میگاواٹ کوئلہ کے 9منصوبوں سے 7423میگاواٹ اور گیس کے ایک منصوبے سے 120میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام منصوبے 2017سے 2024تک مکمل ہو جائیں گے ۔