توانائی بحران ختم کرنے کیلئے حکومت کی سنجیدہ کوششیں قابل تعریف ہیں، وفاق ایوانہائے صنعت و تجارت پاکستان

نئے منصوبوں کیساتھ ٹرانسمیشن و ڈسٹریبیوشن سسٹم کو بہتر بنانا، بجلی کے بلوں کی وصولی ، چوری کی روک تھام اور سسٹم کے نقصانات پر قابو پانا ہو گا زبیر طفیل

اتوار 18 ستمبر 2016 15:41

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 18 ستمبر - 2016ء) وفاق ایوانہائے صنعت و تجارت پاکستان (ایف پی سی سی آئی) کے یونائیٹڈ بزنس گروپ (یو بی جی ) نے کہا ہے کہ توانائی بحران ختم کرنے کیلئے حکومت کی سنجیدہ کوششیں قابل تعریف ہیں ۔ نئے بجلی گھروں کے ساتھ پرانے بجلی گھروں کی اپ گریڈیشن اور بجلی کے ترسیل و تقسیم کے نظام کو بھی بھاری سرمایہ کاری کے ذریعے جدید بنایا جائے ورنہ قومی گرڈ میں اضافی بجلی شامل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

بجلی کا سال خوردہ ٹرانسمیشن و ڈسٹری بیوشن سسٹم دو سال کے اندر اندر قومی گرڈ میں شامل ہونے والی تقریباً 13 ہزار میگاواٹ بجلی کو تقسیم و ترسیل کا اہل نہیں۔ یو بی جی کے سیکرٹری جنرل زبیر طفیل نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ توانائی بحران کئی سال سے جی ڈی پی کی شرح کو متاثرکر رہاہے ۔

(جاری ہے)

ملک میں بجلی کی کمی اوسطاً 4 ہزار میگاواٹ ہے جوموسم گرما میں 7 ہزار میگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے جبکہ گیس کا شارٹ فال دو ارب مکعب فٹ ہے ۔

آبادی میں اضافہ کی وجہ سے بجلی کی گھریلو کھپت میں سالانہ دس فیصد اضافہ ہو رہا ہے مگر پیداوار میں اس رفتار سے اضافہ نہیں کیا جا رہا ہے۔لوڈ شیڈنگ سے نمٹنے کیلئے ساٹھ فیصد گھرانے یو پی ایس اور انورٹر استعمال کرتے ہیں جس سے بجلی کے آلات متاثر ہوتے ہیں اور اس کا خرچہ سالانہ تیس ارب روپے ہے جو بچایا جا سکتا ہے۔ زبیر طفیل نے کہا کہ توانائی کے نئے منصوبوں کے ساتھ ٹرانسمیشن و ڈسٹریبیوشن سسٹم کو بہتر بنانا، بجلی کے بلوں کی وصولی ، چوری کی روک تھام اور سسٹم کے نقصانات پر بھی قابو پانا ہو گا ورنہ صورتحال بہتر نہیں ہو سکے گی۔

اس وقت ملک میں چوبیس ہزار میگاواٹ بجلی بنانے کی استعداد موجود ہے مگر پیدا کی گئی تمام بجلی کا نصف سسٹم کے نقصانات اور چوری کی نظر ہو جاتا ہے جبکہ ڈسٹری بیوشن کمپنیز صارفین سے وصولیاں نہیں کر پاتیں جس پر قابو پایا جائے۔ بجلی کے نادھندگان میں سے نصف حصہ یعنی پونے چار سو ارب روپے مختلف سرکاری محکموں کے ذمہ ہیں جن سے وصولی مشکل ہے۔ اگر وصولیوں میں اضافہ اور چوری و لائن لاسز میں کمی نہیں کی گئی تو نئے منصوبے حکومت پر مالی بوجھ بن جائینگے اور گردشی قرضہ دگنی رفتار سے بڑھے گا۔

متعلقہ عنوان :