جن لوگوں کے نام پانامہ لیکس میں آئے تھے انہیں شفاف تحقیقات تک اپنے عہدوں سے الگ ہوجانا چاہئے تھا‘سراج الحق

جب تک کسانوں کو جاگیروں اور مزدوروں کو کارخانوں کی آمدن میں شریک نہیں کیا جاتا مزدوروں اور کسانوں کے معاشی حالات بہتر نہیں ہوسکتے‘امیر جماعت اسلامی

ہفتہ 10 ستمبر 2016 20:16

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔10ستمبر ۔2016ء ) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ کرپشن بے نقاب ہونے کے باوجود اقتدار کے ایوانوں میں براجمان رہنے والوں نے ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کی بدترین مثال قائم کی ہے ،جن لوگوں کے نام پانامہ لیکس میں آئے تھے انہیں شفاف تحقیقات تک اپنے عہدوں سے الگ ہوجانا چاہئے تھا،جب تک کسانوں کو جاگیروں اور مزدوروں کو کارخانوں کی آمدن میں شریک نہیں کیا جاتا مزدوروں اور کسانوں کے معاشی حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے منصورہ میں کسان بورڈ پاکستان کے نئے صدر نثار احمد ایڈووکیٹ اور نئے سیکرٹری جنرل ارسلان خان خاکوانی کی تقرری اور سبکدوش ہونے والے سابق صدر صادق خان خاکوانی کے اعزاز میں منعقدہ تقریب کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

تقریب میں نائب امراء حافظ محمد ادریس ،میاں محمد اسلم ،سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ ،ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ،محمد اصغر ،حافظ ساجد انور ،کسان بورڈ کے مرکزی عہدیداروں اور جماعت اسلامی پاکستان کے ناظمین شعبہ جات نے بھی شرکت کی ۔

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ حکومت سے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ بری طرح مایوس اور ناامید ہوچکے ہیں ،کسانوں ،ڈاکٹروں ،اساتذہ اور مزدوروں سمیت زندگی تمام طبقات کے لوگ اپنے مسائل کے حل کیلئے آئے روز سڑکوں پرسراپا احتجاج ہوتے ہیں مگر حکمران سب اچھا کی گردان الاپ رہے ہیں ،انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی 70فیصد آبادی زراعت کے شعبہ سے وابستہ ہے مگر کسانوں کو ان کی فصلوں کی قیمت نہ ملنے اور مداخل کی قیمتوں میں بار بار اضافہ ہونے سے زراعت تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی ہے ،انہوں نے کہا کہ فصلوں کی پیداوار پر پانی کی عدم دستیابی نے بہت برا اثر ڈالا ہے ،آبی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی فی ایکٹرفراہمی انتہائی کم ہوچکی ہے اور جنوبی پنجاب میں تو لاکھوں ایکڑ اراضی پانی نہ ملنے کی وجہ سے بنجر ہوچکی ہے ،جس سے کپاس ،گنا ،چاول اور گندم جیسی بڑی فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار آدھی سے بھی کم رہ گئی ہے اور اگر یہی صورتحال رہی تو پاکستان کو خوراک کیلئے دوسرے ملکوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑیں گے ۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ زرعی مقاصد کیلئے بجلی اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کی جائے تاکہ کسان ٹیوب ویلوں کے ذریعے اپنی فصلوں کو پانی دے سکیں اور کھاد بیج اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں بھی کمی کی جائے ۔انہوں نے کہا کہ حکمران کسان پیکج کا اعلان کردیتے ہیں اور بعد میں اس پر عمل درآمد کا جائزہ نہیں لیاجاتا ۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ قابل کاشت زمینوں میں اضافہ کیلئے جنوبی پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں میں پڑی ہوئی بے آباد اور بنجر سرکاری زمین کے مالکانہ حقوق ان زمینوں کو آباد کرنے والوں کو دے دیئے جائیں اور ان علاقوں تک نئی نہروں کی کھدائی کی جائے تاکہ ملک کو خوراک میں خود کفیل بنایا جاسکے ۔

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنا قابل ستائش ہے مگر جن لوگوں کی زمینوں پر سال ہا سال سے جاگیرداروں اور وڈیروں نے قبضہ کررکھا ہے ان کی فریاد بھی سنی جائے ۔انہوں نے کہا کہ ایسے قابضین کے خلاف قانون حرکت میں اس لئے نہیں آتا کہ یہ لوگ خود اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات میں اعلان کردہ مراعات سے صرف حکومتی ایوانوں سے وابستہ افرادہی استفادہ کر سکیں گے ۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ کسانوں کو بلا سود قرضے مہیا کئے جائیں ۔اسٹیٹ بنک پاکستان نے اس ضمن میں بہت سارے طریقے وضع کئے ہوئے ہیں سوال صرف حکومت کی قوت ارادی کا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت زراعت کا شعبہ جس طرح سسک رہا ہے ۔حکومت وقت سے یہ توقع تھی کہ وہ میٹرو بسوں اور اورنج لائن ٹرین کی طرح کے منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کرنے کی بجائے زراعت کے شعبہ کی بہتری کے لئے بھرپور منصوبہ بندی کرے گی مگر حکمرانوں کے رویے سے لگتا ہے کہ انہیں سڑکوں ،پلوں اور میٹرو بسوں اور اورنج لائن ٹرین کے علاوہ کوئی دوسراکام سوجھتاہی نہیں ۔

سینیٹر سراج الحق نے کسان بورڈ کے سبکدوش ہونے والے صدر صادق خان خاکوانی کی کسانو ں کے لیے خدمات کو زبردست الفاظ میں سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ وہ کسان بورڈ کی سرپرستی اور رہنمائی جاری رکھیں گے۔