رواج ایکٹ کے نام پر ایف سی آر کو مسترد کرتے ہیں ،مشتاق احمدخان

قبائلی عوام جن سیاسی، معاشی، انسانی حقوق سے محروم ہیں، قبائلی عوام کے لیے انصاف کے راستے کھولنا چاہتے ہیں،امیر جماعت اسلامی خیبرپختونخوا

جمعرات 8 ستمبر 2016 20:38

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔8 ستمبر ۔2016ء) امیر جماعت اسلامی خیبرپختونخوا مشتاق احمد خان نے کہا ہے کہ رواج ایکٹ کے نام پر ایف سی آر کو مسترد کرتے ہیں ۔قبائلی عوام جن سیاسی، معاشی، انسانی حقوق سے محروم ہیں، وہ انہیں دلانا چاہتے ہیں اور قبائلی عوام کے لیے انصاف کے راستے کھولنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ قبائلی عوام کو خود اپنے وسائل کے استعمال کا اختیار دیا جائے۔

قبائلی عوام کو عزت اور ان کے بچوں کے ہاتھ میں کتاب دیکھنا چاہتے ہیں۔فاٹا کو صوبہ خیبرپختونخوا میں شامل کر کے وہاں کے عوام کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے ۔ جدید دور میں بھی فاٹا کے عوام زندگی کے بنیادی ضروریات سے محروم ہیں ۔ جماعتِ اسلامی فاٹا کے مسئلے کا ایسا حل چاہتی ہے جو خود فاٹا کے عوام کی امنگوں اور اُن کی خواہشات کے مطابق ہو۔

(جاری ہے)

ہم قبائلی عوام اور فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے کسی ایسے فارمولے کے ہرگز خواہاں نہیں جو قبائلی عوام کی مرضی کے برعکس اُن پر تھوپ دیا جائے۔وہ مرکز اسلامی پشاور میں قبائیلی عوام کے ایک وفد سے بات چیت کر رہے تھے ۔ وفد میں نائب امراء جماعت اسلامی فاٹا زرنور آفریدی ، سردارخان باجوڑی اور دیگر قائدین شامل تھے ۔ مشتاق احمد خان نے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ایف سی آر کالا قانون ہے اسے کسی طور بھی جاری رکھنا کوئی قبائلی گوارا نہیں کرے گا۔

رواج ایکٹ کے طور ایف سی آر کو طول دینا انتہائی بدقسمتی ہوگی اور اس کو کسی طور تسلیم نہیں کیا جائے گا۔انہوں نے کہاکہ فاٹا میں قوانین کو تبدیل کیا جائے اور عوام کی منشاء کے مطابق وہاں کا فیصلہ کیا جائے انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ قبائلی علاقے کو فوری طور پر خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا جائے یہی وقت کا تقاضا ہے۔انہوں نے کہاکہ فاٹا دنیا کی واحد سرزمینِ بے آئین ہے۔

انہوں نے کہاکہ فاٹا کی آئینی حیثیت، وفاق کے زیر انتظام علاقے، فاٹا سے تبدیل کرکے صوبہ خیبر پختونخواہ کے زیر انتظام قبائلی علاقہ، پاٹا بنایا جائے،ا ور اس طرح فاٹا کے لوگوں کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی ملے گی اور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار فاٹا تک بڑھایا جائے گا۔ تاکہ فاٹا کے عوام کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوکر اعلیٰ عدالتوں کے ذریعے بنیادی انسانی حقوق کے نفاذ کی ضمانت مل سکے۔

انہوں نے کہاکہ فاٹا کی موجودہ صورتِ حال ناگفتہ بہ ہے۔ جنگ و جدل کے نتیجے میں لاکھوں قبائلی عوام آئی ڈی پیز کی صورت میں ملک کے مختلف حصوں میں پناہ لے چکے ہیں۔ اور بعض لوگ کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔ کیونکہ فاٹا میں دو لاکھ کے لگ بھگ مکانات تباہ ہوچکے ہیں، جس کے لیے حکومت نے تاحال دوبارہ تعمیر نو کے لیے کچھ بھی نہیں کیا، اور لوگ بدستور بے سر و سامانی میں بھکاریوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ فاٹا میں تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی دوبارہ بحالی اور لاکھوں آئی ڈی پیز کی جلد از جلد باعزت واپسی کے بعد آبادکاری، تعمیر نو اور ترقی کے لیے کم از کم 500 ارب روپے کا مالیاتی پیکج دیا جائے۔