چین کو متنازعہ جزائرپر عالمی عدالت کا فیصلہ تسلیم کرنا ہی ہوگا،اوباما

جمعرات 8 ستمبر 2016 14:15

وینتین(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔08 ستمبر۔2016ء) امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ چین کو بحیرہ جنوبی چین پر اپنے دعوے سے متعلق عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے پر عمل کرنا ہوگا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر نے یہ بات جمعرات کو لاوٴس میں ایشیائی ممالک کے سربراہانِ مملکت کے اجلاس سے خطاب کے دوران کہی۔امریکی صدر نے اپنے خطاب میں عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے سے متعلق کہا کہ اس نے خطے میں سمندری حقوق کو واضح کیا ہے اور چین بحیرہ جنوبی چین پر اپنے بے جا دعوے کی وجہ سے عدالتی فیصلے کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔

انھوں نے کہا کہ اس صورتحال سے علاقائی کشیدگی بڑھ رہی ہے جو کہ خطے کی سکیورٹی کے لیے خطرہ ہے۔براک اوباما نے ایشیائی رہنماوٴں سے خطاب میں کہا کہ وہ اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کو تسلیم کرتے ہیں اور ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ اس پر کیسے تعمیری بات چیت کی جائے، مل کر آگے بڑھ کر کشیدگی کو ختم کیا جائے اور سفارتکاری اور استحکام کو بڑھایا جائے۔

(جاری ہے)

صدر اوباما کی جانب سے اس بات پر زور دینا کہ عدالتی فیصلے پر عمل چین پر ذمہ داری ہے۔ خیال رہے کہ چین امریکہ پر الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہ اپنی فوج کی فضائی اور بحری سرگرمیوں سے جنوبی بحیر? چین کے تنازعے کو عسکری رنگ دے رہا ہے۔عالمی ثالثی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ جنوبی بحیرہ چین سالانہ طور پر 50 کھرب کی بین الاقوامی تجارتی نقل و حمل کی گزرگاہ ہے اور اس کے پانیوں پر چین کے دعوے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین کی جانب سے حالیہ برسوں میں اس علاقے میں بڑے پیمانے پر تعمیرات بھی اس کے دعوے کو جھوٹا ثابت کرتی ہیں۔چین بحیرہ جنوبی چین کے پورے خطے پر اپنا حق جتاتا ہے جو دیگر ایشیائی ممالک ویتنام اور فلپائن کے دعووں سے متصادم ہے۔ان ممالک کا الزام ہے کہ چین نے اس علاقے میں مصنوعی جزیرہ تیار کرنے کے لیے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور اسے عسکری مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔چین کا کہنا ہے کہ اس کا سمندر میں مصنوعی جزیرے اور اس پر تعمیرات کا مقصد شہریوں کے لیے سہولیات پیدا کرنا ہے لیکن دوسرے ممالک اس کی ان کوششوں کو فوجی مقاصد کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :