تیزی سے بڑھتی آبادی کے باعث پاکستانی خوردنی تیل کی قلت سے دو چار ہوسکتا ہے ،سلطان صلاح الدین

پیر 5 ستمبر 2016 12:47

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔05 ستمبر۔2016ء) ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے ڈائریکٹر تیل دار اجناسنے سلطان صلاح الدین نے کہا ہے کہ پاکستان کی آبادی میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ دوسری طرف ملک خوردنی تیل کی قلت سے دوچار ہے ۔ پاکستان خوردنی تیل کی کل ضرورت کا ایک تہائی حصہ خود پیدا کرتا ہے جبکہ باقی دوتہائی حصے کثیر زرمبادلہ خرچ کرکے درآمد کرتا ہے جس سے حکومت کو اربوں روپے کا مالی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے فارمرز ڈے کے موقع پر کاشتکاروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں تیل پیدا کرنے والی فصلیں رایا ، سرسوں اور توریا پیداوار کے اعتبار سے کپاس کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔

(جاری ہے)

ان تیلدار فصلوں کے تیل میں قدرتی طورپر مضر صحت اجزا اروسک ایسڈ اور گلوکو سائنولیٹ قلیل مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔

انہوں نے کاشتکاروں کو ہدایت کی کہ وہ سرسوں ، رایا اور توریا کی منظور شدہ اقسام پنجاب سرسوں ، فیصل کینولہ، خان پور رایا، ڈی جی ایل ، ہائی اولا 401، رایا انمول ، توریاایس اے، روہی سرسوں اور سپر رایا پنجاب کے تمام آبپاش علاقوں میں کاشت کریں۔ انہوں نے کہا کہ سرسوں ، توریا اور رایا کی کاشت کے لیے دو سے تین مرتبہ ہل چلا کر زمین کو اچھی طرح تیار کریں۔

پنجاب کے بارانی اضلاع میں حالیہ بارشوں کے وتر میں رایا انمول کی کاشت 15ستمبر اور توریا کی کاشت 30ستمبر تک مکمل کریں۔ انہوں نے کاشتکاروں کو مزید بتایا کہ وہ سرسوں، توریا اور رایا کا ڈیڑھ سے دو کلوگرام بیج فی ایکڑ استعمال کریں اور ان تیل دار اجناس کو تر وتر میں سمال سیڈ ڈرل یا پور کے ذریعے کاشت کریں۔قطاروں کا درمیانی فاصلہ 45سینٹی میٹر رکھیں یا کھیت میں بیج کا چھٹہ دینے کے بعد رجر کے ذریعے ڈیڑھ فٹ کے فاصلہ پر سیاڑ نکال کر بھی سرسوں اور رایا کی بوائی کی جاسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ سرسوں ، توریا اور رایا کی فصلوں میں ایک بوری ڈی اے پی، آدھی بوری یوریا اور آدھی بوری پوٹاشیم سلفیٹ یا ایک بوری ٹی ایس پی ایک بوری یوریا اور آدھی بوری پوٹاشیم سلفیٹ فی ایکڑ ڈالیں۔

متعلقہ عنوان :