پاکستان میں پیداہونے والا ہربچہ ایک لاکھ 6228روپے کا مقروض ہے،ماہرین معاشیات

تین برسوں میں حکومتی قرضے 6120ارب روپے تک جا پہنچے ہیں،گورنر اسٹیٹ بینک کو حکومتی ترجمان نہیں بننا چاہئے،ڈاکٹراشفاق احسن ،شاہد حسین صدیقی پاکستان میں15 سے 24 سال کی عمر کے لڑکوں نے مایوس ہوکر نوکریوں کی تلاش چھوڑ دی ہے جو انتہائی خطرناک بات ہے،فرید خان اکرام سہگل اور دیگر کا سیمینار سے خطاب

ہفتہ 3 ستمبر 2016 18:02

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔3 ستمبر ۔2016ء) ماہرین معاشیات نے کہاہے کہ پاکستان میں پیداہونے والا ہربچہ ایک لاکھ 6228روپے کا مقروض ہے،تین برسوں میں حکومتی قرضے 6120ارب روپے تک جا پہنچے ہیں،گورنر اسٹیٹ بینک کو حکومتی ترجمان نہیں بننا چاہئے ،ان کا نقطہ نظرغیرجانبدارہوتا ہے۔ملکی معیشت کو عالمی مارکیٹ میں تیل مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے سہارا ملاہوا ہے۔

ہمارے ملک کے سیاست دان پیسے خرچ کر کے ایوانوں میں آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ خزانہ بھرنے کی جگہ خالی کرنے پر زور دیتے ہیں۔پاکستان میں15 سے 24 سال کی عمر کے لڑکوں نے مایوس ہوکر نوکریوں کی تلاش چھوڑ دی ہے جو انتہائی خطرناک بات ہے۔ گزشتہ تین سالوں میں معاشی اہداف حاصل نہیں کئے جاسکے ہیں، ملک کی 79 فیصد ترسیلات زرصرف تین ممالک سے آتی ہیں جو پریشان کن بات ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہارسابق وفاقی وزیرڈاکٹراشفاق حسن،شاہد حسن صدیقی ، فرید احمد خان،سہیل وجاہت خان،دفاعی تجزیہ کاراکرام سہگل اور دیگرنے سی ای او کلب پاکستان کے تحت پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے مقامی ہوٹل میں سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے کیا۔سابق مشیرخزانہ ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہاکہ پاکستانی معیشت اسی مقام پر کھڑی ہے جہاں 2008 میں تھی۔

معشیت کو درپیش چیلنجز جو اس وقت تھے آج بھی جوں کے توں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ملکی معشیت کو درپیش چیلنجز چند دنوں میں ٹھیک نہیں کیے جا سکتے،معیشت کو بہتر کرنے کے لئے طویل المدتی پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔بے روزگاری کی وجہ سے یونی ورسٹیوں کے گریجویٹ ٹارگٹ کلرز بن رہے ہیں۔

میرا خود کا تعلق یونی ورسٹی سے ہے اس بات کا مشاہدہ کرچکا ہوں۔انہوں نے کہاکہ پاکستان میں 15 سے 24 سال کی عمر کے لڑکوں نے مایوس ہوکر نوکریوں کی تلاش چھوڑ دی ہے جو انتہائی خطرناک بات ہے،حکومت کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ شعبہ بھی ملازمتوں کے مواقع پیدا نہیں کررہاہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان میں صرف اعدادوشمار کا گورکھ دھندہ ہے۔جو چیز ٹھیک نہیں ہوتی اسکی تعریف ڈیفینیشن تبدیل کردی جاتی ہے۔

انہوں نے گورنر اسٹیٹ بینک کو حکومتی ترجمان قراردیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔گورنراسٹیٹ بینک کوحکومت کے منفی اقدامات کو سپورٹ کر رہے ہیں انہیں حکومتی ترجمان نہیں بننا چاہئے۔ان کا نیوٹرل نقطہ نظر ہوتا ہے۔ڈاکٹرشاہدحسن خان نے کہاکہ ہمارے ملک کے سیاست دان پیسے خرچ کر کے ایوانوں میں آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ خزانہ بھرنے کی جگہ خالی کرنے پر زور دیتے ہیں۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ماہرمعیشت سید شاہد حسن خان نے کہاکہ پچھلے تین سالوں میں معاشی اہداف حاصل نہیں کئے جاسکے۔ملک کی 79 فیصد ترسیلات زر صرف تین ممالک سے آتی ہیں جو پریشان کن بات ہے۔انہوں نے بتایا کہ تین برسوں میں حکومتی قرضے 6120 ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔حکومت کہتی ہے کہ ملکی زرمبادلہ کے زخائر میں 12 ارب ڈالر کااضافہ ہوا ہے مگر دوسری جانب غیرملکی قرضہ جات میں بھی 12 ارب ڈالر بڑھ گئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ملکی معیشت کو عالمی مارکیٹ میں تیل مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے سہارا ملاہوا ہے۔بدقسمتی سے پاکستانی سیاستدانوں اور پارلیمینٹیرینز نے ملکی معیشت کے خلاف گٹھ جوڑ بنا رکھا ہے۔یہاں صرف پاناما اسکینڈل کی بات کی جاتی ہے۔سید شاہدحسن نے کہاکہ اسٹیٹ بینک حکومتی قرضوں پر پابندی عائد کرے جبکہ سالانہ 8 ہزار ارب روپے کی ٹیکس چوری کو روکنا ہوگا۔

سید شاہد حسن نے کہاکہ ملکی معیشت میں بہتری میں سب سے بڑی رکاوٹ ملکی طاقتور طبقہ ہے۔انہوں نے کہاکہ تعلیم پر ہم کئی افریقی ممالک سے کم خرچ کررہے ہیں۔ہمارے پاس قدرتی ذخائر نہ صرف وافر مقدار میں ہیں بلکہ نایاب ذخائربھی ہیں۔دفاعی تجزیہ نگاراکرام سہگل نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پاکستانی معیشت مستحکم ہے اور مستقبل میں بھی مستحکم رہے گی،ہر چیز بری نہیں ہے ملکی معیشت کا اتنا برا بھی نہ کہا جائے۔

پاکستان کا شمار بہترین گندم، دودھ، کپاس، چاول پیدا کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔انہوں نے کہاکہ سی پیک منصوبہ ملکی تقدیر بدلنے والا منصوبہ ہے۔ملکی معیشت میں بہتری کی گنجائش ہے مگر ہماری معیشت گئی گزری نہیں ہے۔انہوں نے سوال کیاکہ کیا پاکستانی اسٹاک ایکسیچیجز کے تمام اعدادوشمار غلط ہیں؟۔سی ای او ایچ بی ایل ایسیٹ مینجمنٹ کمپنی فرید احمد خان نے اپنے خطاب میں کہاکہ ملکی معیشت کا اندازہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر، اسٹاک مارکیٹس میں تیزی اور گروتھ ریٹ سے ہی نہیں لگانا چاہئے ہم دیگر عوامل کو نظر انداز کرتے ہیں۔

ہمارے ملک میں غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔حکومتی قرضوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔ان عوامل کی وجہ سے ملکی معیشت ٹریڈنگ اکانومی بن کررہ گئی ہے۔انہوں نے کہاکہ غریب طبقہ مایوس ہے،مہنگائی عروج پر ہے۔حکومت کو عالمی مارکیٹ میں تیل مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے استفادہ کرنا چاہئے۔سابق وفاقی وزیر اور ماہر معیشت سہیل وجاہت خان نے کہاکہ ہمیں پاکستان کی معیشت کے حوالے سے سچ بولنا ہوگا۔

ہماری آمدن کم اور اخراجات بڑھتے جارہے ہیں۔ملکی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے مگر زرعی پانی اور بجلی کی قلت کی وجہ سے زراعت کا شعبہ شدید متاثر ہے۔انہوں نے کہاکہ ملک میں کمرشل تنازعات میں ناانصافی کا راج ہے۔سرکلر ڈیٹ میں اضافہ ہوا ہے۔ملکی معیشت کو بہتر کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانا ہوں گے۔قبل ازیں سی ای او کلب پاکستان کے چیئرمین اعجاز ناصر نے مہمانوں کو خوش آمدیدکیااورکہاکہ اگلے دو سے تین سال ملکی معیشت کی بہتری کے لئے اہم ہیں۔اس موقع پراسپیکرز نے شرکا کے سوالوں کے جوابات بھی دیئے۔

متعلقہ عنوان :