پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ملک کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا لیکن کچھ لوگوں کو ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی ہضم نہیں ہو پا رہی اور نہ ہی وہ ملک سے اندھیروں کا خاتمہ چاہتے ہیں اسی لیے وہ منفی سیاست کرتے ہوئے ملک میں دھرنے اور احتجاجی ریلیوں کا سہارالے رہے ہیں انہیں ماضی کی طرح مایوسی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا،حکومت کی طرف سے پیش کیا جانے والا بل ایک مضبوط بل ہے جو نہ صرف پاناما پیپرز کی تحقیقات میں مددگار ثابت ہوگا بلکہ مستقبل میں بھی کرپشن کی تحقیقات کے لیے اس بل سے مستفید ہوا جا سکے گا

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹرمحمد اسحاق ڈار کی نجی ٹی وی چینل سے بات چیت

جمعہ 2 ستمبر 2016 23:05

اسلام آباد ۔02 ستمبر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔2 ستمبر ۔2016ء) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹرمحمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ملک کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا اس پر تیزی سے کام جاری ہے لیکن کچھ لوگوں کو ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی ہضم نہیں ہو پا رہی اور نہ ہی وہ ملک سے اندھیروں کا خاتمہ چاہتے ہیں اسی لیے وہ منفی سیاست کرتے ہوئے ملک میں دھرنے اور احتجاجی ریلیوں کا سہارالے رہے ہیں جس سے انہیں ماضی کی طرح ما یوسی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔

ان خیا لات کا اظہار انہوں نے جمعے کو ایک نجی ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے پیش کیا جانے والا بل ایک مضبوط بل ہے جو نہ صرف پاناما پیپرز کی تحقیقات میں مددگار ثابت ہوگا بلکہ مستقبل میں بھی کرپشن کی تحقیقات کے لیے اس بل سے مستفید ہوا جا سکے گا، اس قانون کو وہ تمام طاقتیں حاصل ہو جائیں گی جن کی مدد سے کوئی بھی کمیشن نہ صرف پاناما لیکس بلکہ مستقبل میں بھی اگر خدانخواستہ ایسا کوئی مسئلہ پیش آتاہے تو اس قانون کی مدد سے بین الاقوامی ماہرین کی ٹیمیں بنائی جا سکتی ہیں، فرانزک آڈٹ کرواسکتے ہیں اور دیگر ممالک کی عدلیہ کو بھی لکھ سکتے ہیں، یہ قانون اتنا طاقت ور ہے کہ اسے سی آر پی سی کی تمام طاقتیں دے دی گئی ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ حکومت پاناما پیپرز کے معاملے پر شروع دن سے کلیئر ہے اور اس کی شفاف تحقیقات چاہتی ہے، ہم آج بھی اس معاملے پر اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں، انہوں نے کہا کہ اپریل 2016ء میں جب پاناما پیپرز کا معاملہ اٹھا تو وزیراعظم محمد نواز شریف نے قوم سے خطاب بھی کیا اور ساتھ ہی سپریم کورٹ کو ایک خط بھی لکھ دیا جس کا کچھ عرصے بعد جواب آیا کہ 1956ء کا ایکٹ ٹوتھ لیس ہے جو کہ گذشتہ 60 سال سے ملک میں نافذالعمل تھا جس کے دوران مشرقی پاکستان بھی ہم سے الگ ہواجبکہ اسامہ بن لادن سمیت گذشتہ 60 سالوں میں جتنی بھی انکوائریاں پاکستان میں ہوئیں سب اسی قانون کے تحت ہوئیں لیکن جب سپریم کورٹ نے اسے ٹوتھ لیس کہا تو ہم نے اسے فوری تسلیم کیا اور ویسے بھی ٹی او آرز کے لیے ایک کمیٹی بھی بن گئی تھی جس میں 6 اپوزیشن کے ارکان اور 6 حکومتی ارکان تھے جن میں دونوں کے اتحادی بھی شامل تھے، اس کمیٹی میں ہم نے پہلے ایک ورژن دیا پھر دوسرا ورژن بھی دیا تاکہ معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کیا جاسکے۔

ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے پیش کردہ بل سے اس قانون کو وہ تمام طاقتیں حاصل ہو جائیں گی جن کی مدد سے کوئی بھی کمیشن وہ نہ صرف پاناما لیکس بلکہ مستقبل میں بھی اگر خدانخواستہ ایسا کوئی مسئلہ پیش آتاہے تو اس قانون کی مدد سے بین الاقوامی ماہرین کی ٹیمیں بنائی جا سکتی ہیں، فرانزک آڈٹ کرواسکتے ہیں اور دیگر ممالک کی عدلیہ کو بھی لکھ سکتے ہیں، یہ قانون اتنا طاقت ور ہے کہ اسے سی آر پی سی کی تمام طاقتیں دے دی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر پاناما لیکس کی تمام ڈاؤن لوڈڈ دستاویزات بھی انہیں فراہم کر رہے ہیں جبکہ 1956ء کے ایکٹ کی جگہ ایک طاقت ور قانون بھی دے رہے ہیں جس سے مستقبل میں بھی مستفید ہوا جا سکے گا، ہماری حتی الامکان کوششوں کے بعد اس بل کوپارلیمنٹ میں پیش کردیا گیا اورکیونکہ اس کمیٹی کا کوئی کنونئیر بھی نہیں اورنہ ہی کوئی چیئرمین ہے اس لیے ہم نے 30 جولائی کو اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو لکھ کر درخواست دی کہ اپوزیشن کو بلائیں جس پر 9 اگست کو ہماری میٹنگ طے ہوگئی لیکن بدقسمتی سے 8 اگست کو کوئٹہ کا افسوسناک واقعہ ہوگیا جس کی وجہ سے یہ میٹنگ ملتوی کرنا پڑی جو کہ ایک ٹھوس وجہ تھی اس کے بعد ابھی ہماری کوئی میٹنگ نہیں ہوئی، سپریم کورٹ کے فیصلے پر اب کسی بھی بل کے پاس ہونے کے لیے کابینہ کا بل پاس کرنا لازمی ہو گیا ہے اس لیے ہم نے اس بل کو کابینہ میں پیش کیا تاکہ اسے پاس کرایا جا سکے۔

ایک اور سوال کے جواب میں سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت کی طرف سے پیش کردہ بل ایک جامع بل ہے جس کے ساتھ ٹی او آرز لگا کر سپریم کورٹ یا کورم کوکمیشن کے لیے لکھا جائے تو یہ ناممکن نہیں، انہوں نے کہا کہ معاملات کے حل کے لیے دونوں جماعتوں کی نیتوں کا درست ہونا بہت ضروری ہوتا ہے اور پروفیشنلی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے حکومت نے ہمیشہ سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور معاملات کے حل کے لیے پوری کوشش کی لیکن اپوزیشن کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا، اپوزیشن پاناما لیکس کے معاملے کے لیے سنجیدہ نہیں بلکہ مخصوص شخصیت اور مخصوص خاندان کو نشانہ بنانا چاہتی ہے جو کہ کسی صورت بھی درست نہیں کیونکہ احتساب بلاامتیاز سب کا ہونا چا ہیے اور جس کسی نے کرپشن کی ہو یا آف شور کمپنی کی مدد سے ناجائز پیسہ اکٹھا کیا ہو ان سب کا جامع اور شفاف احتساب ہونا چاہیے اور یہی ہم چاہتے بھی ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کی موثر اور کارآمد پالیسیوں کی بدولت ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے اور ہماری معیشت بھی روز بروز مستحکم ہو رہی ہے جس کا اعتراف عالمی ادارے بھی کر رہے ہیں، اسکے علاوہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ جو کہ ملک کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا اس پر بھی کام تیزی سے جاری ہے لیکن کچھ لوگوں کو ملک و قوم کی یہ ترقی و خوشحالی ہضم نہیں ہو پا رہی اور نہ ہی وہ ملک سے اندھیروں کا خاتمہ چاہتے ہیں اسی لیے وہ منفی سیاست کرتے ہوئے ملک میں دھرنے اور احتجاجی ریلیوں کا سہارالے رہے ہی جس سے انہیں ماضی کی طرح ما یوسی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا، ہم نے ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کا جو پختہ عزم کر رکھا ہے اس کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اگر ان لوگوں نے اپنی منفی سیاست اور دھرنوں کے تماشوں سے ملکی ترقی و خوشحالی کے سفر کو روکنے کی کوشش کی تو یہ ساری ذمہ داری انہی لوگوں پر ہوگی اور تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی کیونکہ ماضی میں بھی ان لوگوں کے دھرنوں کی وجہ سے ملک کو اربوں کا نقصان ہوا ہے جو انہیں پورا کرنا چاہیے، ان لوگوں کو ماضی کی روش کو ترک کر کے ملکی ترقی و خوشحالی میں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ ملک آگے بڑھے، یہ لوگ صرف اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتے ہیں جو کسی صورت بھی درست نہیں۔